امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت دورے کے دوران کم از کم پانچ معاہدوں پر دستخط کئے جانے کی تیاری ہو رہی ہے، لیکن دورہ کی بنیادی فوقیت دو طرفہ معاہدوں کے بجائے امریکی قیادت کے سامنے بھارت کی صدیوں قدیم ثقافتی تنوع اور شان وشوکت کے ساتھ جمہوریت کی طاقت دکھانے پر ہو گی جس سے دونوں ممالک کی عالمی اسٹریٹجک شراکتداری مزید مضبوط ہو گی۔
وزارت خارجہ کے ترجمان رويش کمار نے بریفنگ میں بتایا کہ مسٹر ٹرمپ کا دورہ بہت مختصر لیکن بہت مصروف ہو گا۔
صدر جمہوریہ رام ناتھ كووند کی دعوت پر مسٹر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ اول خاتون میلانيا ٹرمپ 24 فروری کو دوپہر سے کچھ پہلے احمد آباد پہنچیں گے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ تقریبا 10 کلومیٹر تک روڈ شو میں شامل لوگوں جس میں بھارت کے ہر صوبے کی ثقافتی جھانکی کو دکھانے کے لئے 28 پلیٹ فارم بنائے جا رہے ہیں۔
اس کے لئے ہوائی اڈے سے سابرمتی آشرم تک شاہراہ کو سجایا جا رہا ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف لاکھوں لوگ دنیا کے سب سے قدیم جمہوریت کے لیڈر کا استقبال کریں گے۔ پروگرام نمستے ٹرمپ میں شرکت کریں گے جس کا انعقاد ڈونلڈ ٹرمپ شہری اسقبالیہ کمیٹی کرے گی۔
رویش کمار کے مطابق ٹرمپ جوڑا شام ساڑھے تین بجے احمد آباد سے روانہ ہو کر ساڑھے چار بجے آگرہ پہنچے گا۔ وہاں وہ تاج محل کا دورہ کرے گا۔ شام ساڑھے 6 بجے آگرہ سے چل کر تقریبا ساڑھے 7 بجے وہ دہلی پہنچیں گے۔
اگلے روز 25 فروری کو مسٹر ٹرمپ نئی دہلی میں ہوں گے، جہاں راشٹر پتی بھون کے صحن میں ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا۔ وہ تینوں فوجوں کے مشترکہ دستے کے سلامی گارڈ کا معائنہ کریں گے اور سلامی لیں گے۔
بعد ازاں راج گھاٹ پر بابائے قوم مہاتما گاندھی کی سمادھی پر گلہائے عقیدت پیش کریں گے۔ اس کے بعد حیدرآباد ہاؤس میں نریندر مودی کے ساتھ وفد سطح کی دو طرفہ چوٹی کانفرنس ہوگی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق میٹنگ میں دونوں ممالک کے درمیان پانچ معاہدے کئے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ان میں تقریبا 25 ہزار کروڑ روپے کے دفاعی سودوں پر دستخط ہونے کا بھی امکان ہے۔
مرکزی کابینہ کی سکیورٹی سے متعلق کمیٹی نے حال ہی میں بحریہ کے لئے 24 رومیو ملٹی مشن ہیلی کاپٹر، فضائیہ کے لئے 6 اپاچی جنگی ہیلی کاپٹرز اور 6 پی 8 آئی جہاز خریدنے کے سودے کی منظوری دی ہے۔ ان کی فراہمی 2023-24 تک ہونے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ ٹرمپ میک ان انڈیا پروگرام کے تحت ایف -18، ایف -15 یا ایف -16 کا اپ گریڈ ورژن ایف -21 مشترکہ طور پر بنانے کی تجویز بھی پیش کر سکتے ہیں۔
دونوں ممالک نے ڈیفنس ٹیکنالوجی اور ٹریڈ انیشی ایٹو (ڈي ٹی ٹی آئی ) کے تحت سات منصوبوں کو نشاندہی کی ہے۔
دو طرفہ تجارتی معاہدہ کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ دونوں فریق نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاہدے پر جلد بازی نہیں کی جائے گی۔ اس پر عام رفتار سے اتفاق رائے قائم ہونے دی جائے گی اور شہریوں کے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مکمل طور پر اتفاق رائے قائم ہونے پر دستخط کئے جائیں گے۔ وہ اس کے لئے کوئی تاریخ مقرر نہیں کرنا چاہتے۔
امریکی صدر کی طرف سے بھارت کے رویے کے تعلق سے کیے گئے تبصرے سے متعلق پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ یہ تبصرہ تجارتی توازن کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔
دونوں ممالک اس میں توازن لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگلے چند برسوں میں امریکہ سے تیل اور گیس کی زیادہ خریداری اور مسافر طیاروں کی خریداری سے توازن آنے کی امید ہے۔
ترجمان نے اشارہ دیا ہے کہ میٹنگ میں غیر مقیم بھارتیوں بالخصوص پیشہ ور نوجوانوں کے لئے ایچ 1 بی ویزا کے سلسلے میں بھارت کے خدشات، دہشت گردی سے مقابلہ، افغانستان کی صورتحال، توانائی تحفظ وغیرہ پر بھی گفتگو ہوگی۔
ٹرمپ کے دورے کے نتائج کے بارے میں پوچھے جانے پر ترجمان نے کہا کہ اس دورے کو تعلقات میں ایک خاص سطح کی پختگی آنے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے، جو دو بڑی جمہوریتوں کے رہنماوں کے درمیان با ضابطہ میٹنگز اور دونوں ممالک کے درمیان قربت بڑھنے کی وجہ سے آئی ہے۔
دونوں رہنماوں نے ذاتی طور پر اس رشتے کو مضبوط بنایا ہے۔ امریکی صدر کاایسا پہلا بھارت دورہ ہے جس میں وہ صرف بھارت آئیں گے اور یہیں سے وطن لوٹ جائیں گے۔ شام کو صدر جمہوریہ كووند راشٹر پتی بھون میں مسٹر ٹرمپ کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کریں گے۔ اس کے بعد رات میں مسٹر ٹرمپ واپس لوٹ جائیں گے۔