غزہ میں بندرگاہ کے کنارے اب یہ کشتیاں زنجیروں میں باندھ دی جائیں گی۔ اس کی وجہ اسرائیلی حکام کی طرف سے فلسطینی مچھواروں پر پابندی ہے۔ فلسطینی مچھوارے ابو کمال کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اس فیصلے سے ان کا گزارا مشکل ہوجائے گا۔ اب کوئی بھی سمندر میں مچھلی نہیں پکڑ سکتا۔
دوسری جانب، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی جانب اس پر راکٹ داغے گئے تھے، جس کے رد عمل میں بندرگاہ کو بند کرنے فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم کسی بھی فلسطینی جماعت نے اس حملے کی ذمہ داری نہیں لی ہے۔
ماہی گیروں کی تنظیم، فشرمین سنڈیکیٹ کے رکن ذکریا بیکر کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے کی غلطی کی سزا مچھلی محکمہ کو دینا ٹھیک نہیں ہے۔ مچھلی کا کاروبار ایک شہری معاملہ ہے، جس کا فوجی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسرے فسلطینی ماہی گیر احمد زیدان اس پابندی سے بے حد دکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے تقریبا 4 ہزار لوگ اس سے متاثر ہوںگے، وہ اب کیا کھائیں اور کیا پئیں گے؟ وہ سمندر پر ہی منحصر ہیں۔ وہ خشکی پر کوئی کام نہیں کر سکتے۔
سنہ 2014 کے بعد سے سب سے خراب دور کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے فلسطینی جماعت حماس اور اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا تھا لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ پابندی کو تشدد کے ساتھ ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔