اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کرکے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی، جن میں من مانی گرفتاریاں، تشدد، جنسی زیادتی اور حراستی اموات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے پاس اپنا کہنے کے لیے کوئی ملک نہیں ہے، اسی طرح انہیں نقل و حرکت اور دیگر بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔
اس 193 رکنی عالمی ادارہ میں 134 ممبران نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ نو نے اس کو منظوری نہیں دی۔ وہیں 28 ارکان اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔ اس قرارداد میں میانمار کی حکومت سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ رخائن، کچین اور شان ریاستوں میں روہنگیا اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے۔ جنرل اسمبلی کی قراردادیں قانونی طور پر پابند نہیں ہوتے لیکن وہ دنیا کے خیالات کو اظہار کرتے ہیں۔
بودھ اکثریتی والے میانمار میں روہنگیا برادری کے لوگوں کو طویل عرصے سے بنگلہ دیش کا 'بنگالی' سمجھا جاتا ہے جبکہ ان کے کنبے کئی نسلوں سے اس ملک میں مقیم ہیں۔ سنہ 1982 کے بعد سے تقریبا کسی کو بھی شہریت نہیں دی گئی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے پاس اپنا کہنے کے لیے کوئی ملک نہیں ہے، اسی طرح انہیں نقل و حرکت اور دیگر بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ لمبے وقت سے چلے آرہے روہنگیا بحران نے 25 اگست سنہ 2017 کو خوفناک شکل اختیار کرلی تھی جب میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کریک ڈاؤن شروع کی تھی۔
فوج نے صوبہ رخائن میں صفائی مہم کا نام دیا تھا اور کہا تھا کہ روہنگیا انتہا پسند گروہ کے حملے کے جواب میں اس نے یہ کاروائی کی ہے۔ اس کاروائی کی وجہ سے بڑی تعداد میں روہنگیا بنگلہ دیش فرار ہوگئے۔
روہنگیا پر الزام لگایا گیا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات انجام دیئے اور ہزاروں مکانات کو جلا دیے گئے تھے۔