ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ بھارت میں محض دس روز باقی رہ گئے ہیں، دونوں ممالک اس موقع پر کچھ علامتی اعلانات کو یقینی بنانے اور محدود تجارتی معاہدوں کو حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کئی ماہ سے اٹکے ہوئے ہیں۔ تاہم عالمی سطح کی تھنک ٹینک 'کارنیگی انڈیا' کی ڈائریکٹر رُودر چوہدھری کا ماننا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی توضیح محض تجارت کے حوالے سے نہیں کی جانی چاہیے۔
چودھری جو ایک اسکالر، مصنف اور ایک اسٹریٹیجک ایکسپرٹ ہیں، ان کے مطابق ٹرمپ کے دورے کے موقع پر دوطرفہ تجارتی معاہدوں کے امکانات نہیں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس میں حائل اڑچنوں کو دور کرنے کے لئے مودی کو خود میز پر تجارت سے متعلق امریکی نمائندے رابرٹ لائٹ ہائزر کے ساتھ ایک موثر بات چیت کرنی پڑے گی اور خود ٹرمپ سے اپیل کرنی پڑے گی۔
سوال: آپ واشنگٹن کے ساتھ مسلسل بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو ٹرمپ کے دورۂ بھارت سے کن چیزوں کے حصول کی اُمید ہے اور امریکی صدر کے اس دورے سے کیا توقعات ہیں؟
جواب: کسی بھی امریکی صدر کا دورۂ بھارت اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہوتی ہے۔ اہم بات یہی ہے کہ صدر ٹرمپ ہمارے یہاں آرہے ہیں۔ وہ دہلی اور احمد آباد میں دو دن قیام کریں گے۔ احمد آباد میں ایک بڑی عوامی ریلی بھی ہوگی۔ یہ سب کچھ دو طرفہ تعلقات کے لئے حوصلہ افزا ہے۔ ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات، بالخصوص امریکہ کے معاملے میں ان کا انحصار جھکاؤ کے اصول پر ہوتا ہے۔ یہ امریکہ کے لئے بھی یہ صحیح وقت ہے کہ وہ بھارت کی طرف توجہ مرکوز کرے۔ اُنہیں خود جھکاؤ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلقات کی مضبوطی کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔
سوال: آنے والے چند ماہ میں امریکہ میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ عمومی طور پر امریکی صدور اپنی میعاد کے آخری پڑاؤ پر سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن کیا اپنی پیش روؤں کے برعکس صدر ڈونلڈ ٹرمپ زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں۔
جواب: وہ کوئی عام صدر نہیں ہیں، وہ بہت مضبوط ہیں۔ ان کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے کافی کوششیں کرنی ہوں گی۔ وہ بھارت، ایک ایسے وقت میں آرہے ہیں، جب وہ خود امریکہ میں اپنے مواخذہ کی کارروائی سے بری ہوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں ان کے مواخذہ کی کارروائی کو زیادہ کوریج نہیں دیا گیا ۔ یہاں پہلے سے ہی یہ تاثر تھا کہ امریکی سنیٹ انہیں بری کردے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی صدر کا مواخذہ ہونا بین الاقوامی سطح پر ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ مواخذہ سے بری ہوجانے کے بعد اسی مہینے ٹرمپ کا بھارت آنا، اپنے آپ میں ایک دلچسپ بات ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ اپنے طور سے نریندر مودی کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
سوال: لیکن وہ ماضی میں وزیر اعظم مودی کا مذاق بھی اڑاتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہارلے موٹرسائیکلز پر بھاری کسٹم ٹیکس بھی عائد کر دیا۔ اُن کی جانب سے کئی بار ایسے ریمارکس بھی آئے ہیں، جن سے نئی دہلی کو پریشانی لاحق ہوگئی۔ کیا ٹرمپ کے حوالے سے یہ سب کچھ قابل قبول ہے اور کیا بھارت کو یہ باتیں معمولی سمجھ کر انہیں نظر انداز کرنا چاہیے؟
جواب: جہاں تک دو طرفہ تجارت کا معاملہ ہے، یہ کم اہمیت کا حامل ہرگز نہیں ہے۔ لیکن ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ تعلقات سے متعلق بڑے اسٹریٹیجک پہلوؤں کے مقابلے میں تجارت کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔ دو طرفہ تجارت کے معاملے میں دو باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ جب ٹرمپ صدر بنے تو انہوں نے نہ صرف خود امریکی تجارتی نظام کو ہلاکر رکھ دیا بلکہ باقی دُنیا کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی ایک دھچکہ دیا۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنی مہم کے دوران صرف اُن ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کا عندیہ دیا ہے، جن میں امریکی مفادات کی بالادستی ہو۔ اس کی وجہ سے بھی بھارت کے تجارتی مفادات پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خواہ المونیم یا لوہا ہو ، یا پھر جی پی ایس ( جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس ) ہو، ان سب معاملات میں کسی نہ کسی طرح سے بھارت کے مفادات متاثر ہوئے ہیں۔ بے شک تجارت کے حوالے سے یہ پریشان کن باتیں ہیں لیکن ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم تجارت کو دو طرفہ وسیع تعلقات کے دوسرے اہم پہلوؤں سے بڑھ کر اہمیت نہ دیں۔ ممکن ہے کہ محدود تجارت سے متعلق معاہدے نہ ہوپائیں، جن کے لئے دونوں ملک پچھلے اٹھارہ ماہ سے کوششیں کررہے ہیں لیکن اس ناکامی کا تعلق ٹرمپ سے زیادہ تجارت سے متعلق امریکی نمائندے رابرٹ لائٹ ہائزر کے ساتھ ہے ، جو اس معاملے میں مخالف بن کر سامنے آتے رہے ہیں۔
سوال : لیکن یہ امریکہ اور خود صدر ٹرمپ ہیں، جو اشیاء کا قیمت بڑھاتے رہے ہیں۔ مالی خسارہ کم کرنے سے متعلق نئی دہلی پر دباؤ کو کم کرنے کے لئے ہم نے تیل ، گیس اور دفاعی آلات امریکہ سے خریدنے شروع کئے ۔ایسی صورت حال میں دوطرفہ تعلقات میں آج تجارت کی کتنی اہمیت ہے؟ اور صنعت کاروں کو مجوزہ معاہدوں کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں؟
جواب: تجارتی معاہدوں کا تعلق رابرٹ لائٹ ہائزر کی ذات سے ہے، جو تجارت سے متعلق گزشتہ تیس سال سے اپنی ایک علاحدہ رائے رکھتے ہیں۔ تجارتی پابندیوں اور چنگی سے متعلق مسائل سال 1980ء اور سال 1990ء کی دہائیوں میں بھی رہے ہیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ المونیم ، لوہے ، زرعات اور دیگر اشیاء کی تجارت کے حوالے سے اسے خسارے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس میرے خیال سے بھارت کا نقطہ نگاہ ہے کہ ہمیں تعلقات کو وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اگر آپ دو طرفہ تعلقات میں تجارتی امور اور دفاعی معاملات کا موازنہ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ تعلقات کی مضبوطی کی اساس امریکہ ۔ بھارت کے دفاعی شعبے میں تعاون پر ہے۔ دو طرفہ تعلقات میں مسائل ہر وقت درپیش رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں بڑے معاملات ، جیسے کہ وسیع پیمانے پر دفاعی معاہدے ، نیو کلیئر ڈیل جیسے امور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ہمیں دوطرفہ تجارت سے متعلق امریکی صدر کے دورے سے زیادہ توقعات کی اپنی خواہش کوقابو میں رکھنا ہوگا۔ اس دورے کا تعلق وضع، توازن اوروسیع اسٹریٹجک امور سے متعلق اعتماد سازی جیسے معاملات سے ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ دو طرفہ تجارتی معاہدے نہ ہوپائیں لیکن اس کی وجہ سے امریکی صدر کے دورے کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی ہے۔ اُن کے اس دورے کے دوران دفاعی شعبے میں نئی ٹیکنالوجی سے متعلق نیا بیانیہ طے پائے گا اور بھارت امریکہ کی جانب سے ہم آہنگی کے ساتھ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ مراکز قائم کرنے پر بات ہوگی ۔
سوال: لاجسٹک ایکس چینج میمو رینڈم آف ایگریمنٹ جیسے طے پائے جاچکے معاہدوں کے نفاذ کی کیا صورتحال ہے؟
جواب :اس ضمن میں نفاذ کا عمل سست ہے۔ در اصل دفاعی معاملات ہم آہنگی سے جڑا ہوتا ہے۔ سال 2005ء میں دفاعی شعبے میں کئے گئے اقدامات میں بھارت امریکہ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کا اقدام شامل تھا۔ اس کے تحت قوائد و ضوابط کو زیادہ آسان بنا نا تھا تاکہ دونوں ممالک اسٹریٹجک پارٹنر شپ کے حوالے سے مواقع کا فائدہ اٹھاسکیں۔ اب جہاں تک لاجسٹک ایکس چینج میمو رینڈم آف ایگریمنٹ جسے معاہے کا تعلق ہے، اس ضمن میں ابھی بھی کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ لیکن دوسری جانب دونوں ممالک کے درمیان ڈیفنس ٹیکنالوجی اینڈ ٹریڈ انیشیٹیو کے معاہدے کے حوالے سے کافی پیش رفت دیکھنے کو ملی ہے۔ دونوں ممالک کو سٹینڈارڈ آپریٹنگ پروسیوجر سے متعلق بنیادی اور یکساں نظریات قائم کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے اگرچہ دفاعی شعبے میں دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے رفتار سست ہے، لیکن ہمیں اس معاملے میں روشنی کی کرن نظر آنے لگی ہے۔
سوال : کیا بھارت کی جانب سے روس سے 400 میزائل سسٹم خریدنے پر امریکہ کی جانب سے سی اے اے ٹی ایس اے کی تلوار بھارت پر ابھی بھی لٹک رہی ہے۔کیا اس موضوع پر بھی بات چیت ہوگی؟
جواب :خواہ روس کا معاملہ ہو یا ایران سے تیل خریدنے کا ، بھارتی حکومت کو ہمیشہ ان معاملات پر بات چیت کرنی پڑتی ہے۔مجھے نہیں لگتا ہے کہ بھارت میں کوئی ان معاملات پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہے۔لیکن آج ہم نے امریکا کے ساتھ معاملات طے کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ہم نے سی اے اے ٹی ایس اے، ایران پر پابندیوں جیسے معاملات پر ایران، روس اور امریکہ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ تعلقات کو بخوبی نبھایا ہے، جن کی وجہ سے بھارت کو اس سے خام تیل کے حصول میں کافی دشواریاں ہوئی ہیں۔یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ ہم نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اچھے سے ہینڈل کیا ہے، جس کے رویے کے بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ماضی کے مقابلے میں امریکہ کے بارے میں کچھ زیادہ ابہام موجود ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ٹرمپ سے ان مشکل مسائل پر وہ سب حاصل کرے گا، جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
سوال : ڈوکلام میں رونما ہوئے واقعہ کے بعد نئی دہلی نے چین اور روس کے ساتھ از سر نو تعلقات بحال کردیئے کیونکہ امریکہ اس معاملے میں بھارت کی توقعات پر کھرا نہیں اترا۔اب جبکہ امریکہ افغانستان میں امن منصوبے کے پیش نظر پاکستان کو خوش رکھنا چاہتا ہے،کیا بھارت کے لئے اس حوالے سے ٹرمپ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں زیادہ مشکلات درپیش ہے؟
جواب: جہاں تک ڈوکلام کا تعلق ہے ، مجھے نہیں لگتا ہے کہ ہمیں امریکہ سے اس معاملے میں مداخلت کی کوئی توقع تھی۔اگر آپ اُن دنوں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیانات کو دیکھیں گے تو وہ بھارت کے حق میں ٹھیک ٹھاک ہی تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سال 2017 میں جب یہ واقعہ ہوا تو بھارتی افواج کے ایک سو سے زیادہ جوان چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ایک سو سے زائد جوانوں کے مقابلے میں آمنے سامنے کھڑے تھے ۔ ہم اُس وقت کسی صورت میں بھی یہ نہیں چاہتے کہ امریکہ کی غیر ضروری مداخلت کرے اور اس کی وجہ سے ہماراچین کے ساتھ یہ معاملہ بد تر شکل اختیار کرے۔ اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ، ٹرمپ کا انٹرنیشنل لیڈرز کے ساتھ کام کرنے کا اپنا طریقہ ہے ۔جب عمران خان واشنگٹن گئے اور ٹرمپ سے ملے تو ایسالگا کہ2 راک سٹار ایک دوسرے کے ساتھ اچھا خاصا وقت گزارنے کے لئے جارہے ہیں۔وہ ایک دوسرے کے گرویدہ لگ رہے تھے۔لیکن اس کے باوجود پاکستان سے متعلق امریکا کی مخالفت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان پر دباؤ برقرار ہے۔ کل کی بات ہے کہ پاکستان نے فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دباؤ کی وجہ سے حافظ سعید کو قید کرنے کا دعوی کیا ہے۔حالانکہ یہ اچھی خبر ہے لیکن ہم پاکستان سے ایسی باتیں پہلے بھی سن چکے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عملی طور پر کیا کچھ ہورہا ہے۔ عمران خان کے واشنگٹن کے ساتھ اچھے مراسم کے باوجود پاکستان پر امریکی دباؤ برقرار ہے۔
سوال : امریکی کانگریس میں کشمیر سے متعلق ایک قرارداد پیش کی گئی ہے ۔ چار امریکی سنیٹروں جن میں ٹرمپ کے قریبی ساتھی مانے جانے والے لنڈسے گراہم بھی شامل ہیں، انہوں نے سیکرٹری آف سٹیٹ پئمپو کو بھارت میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور قومی شہریت رجسٹر کے حوالے ایک خط بھی لکھا ہے۔کیا بھارت کے اِن اندرونی معاملات کے حوالے سے نئی دہلی نے کانگریس کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور کیا یہ مسئلہ بھی ٹرمپ کے دورے کے موقعے پر موضوع بحث بنے گا؟
جواب: امریکہ میں تعینات بھارتی سفارتی مشن اور ہماری بیوروکریٹک مشنری ہمیشہ کانگریس کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے۔ کئی پریشان کن مسائل کے باوجود بھارتی اور امریکی حکام کے درمیان ایک خوشگوار بات چیت جاری رہتی ہے۔ ہاں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکی کانگریس بھارت کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات پوچھ رہی ہے۔ وہ کبھی بھارت کی اندرونی اقدامات کو سمجھ پاتے ہیں اور کبھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا یہ معاملہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان بات چیت میں ایک موضوع ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اسے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سطح پر اور بیوروکریٹز کی بات چیت کے لئے چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ اس ضمن میں مودی سے تذکرہ کریں گے کیونکہ ان کے ( ٹرمپ ) کے بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی ہے اور وہ کئی لحاظ سے ناتجربہ کار بھی ہیں۔ شائد وہ اپنے ملک میں اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ایسا کریں لیکن اگر ان معاملات کے حوالے سے وہ مودی سے کچھ کہیں گے بھی تو مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ ہوگا۔ وہ یہاں کوئی ایجنڈا لے کر نہیں آرہے ہیں۔ لنڈسے گراہم اور تین دیگر سنیٹروں کی جانب سے ایک خط لکھنے سے مودی اور ٹرمپ کی بات چیت کا ایجنڈا طے نہیں ہوگا۔
سوال: امریکہ کی جانب سے امیگریشن قوانین میں اصلاحات اور ایچ 1 بی ویزا نظام پر بھارت میں تشویش پائی جاتی ہے۔اس حوالے سے اس وقت کیا صورتحال ہے؟
جواب:یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ ہم محض امریکی امیگریشن نظام کی نکتہ چینی نہیں ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے امریکہ میں بھارتی ورکرز متاثر ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ویزا نظام کی وجہ سے امریکہ میں بھارت کے ورکرز کس حد تک متاثر ہوگئے ہیں۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جو ماضی میں بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود تھے۔ اس مسئلے کو بیروکریٹک سطح پر حل کرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوا تو اس کے نتیجے میں دوطرفہ تعلقات مزید قوی ہوجائیں گے۔ مجھے اُمید ہے کہ بھارت رابرٹ لائٹ ہائزر سے نمٹ پائے گا اور بھارت براہ راست ٹرمپ سے اپیل کرے گا تاکہ محدود پیمانے کی تجارت سے متعلق معاہدے یقینی ہوپائیں۔
سوال :امریکہ کے نکتہ نظر سے انڈو پیسفک علاقے کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: اس کا تعلق دونوں ممالک سے ہے۔ یہ دونوں بھارت اور امریکہ کے مفادار سے تعلق رکھتا ہے۔ امریکہ اس بات کو سمجھ چکا ہے۔ اس معاملے میں گزشتہ ایک دو سال کے دوران بھارتی سفارت کاری کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ انڈو پیسفک اب امریکہ کی اسٹریٹجی سے متعلق خاکے میں شامل ہے۔ جبکہ اسے بھارت کی نظر میں بھی اسٹریٹجیک اہمیت حاصل ہے۔ ہم اس خاکے کی تفصیلات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آسانی سے سمجھنے کیلئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر اقتصادیات، اقتصادی روابط اور انضمام سے متعلق ہے۔انڈو پیسفک کے ساتھ ساتھ ہم نےکواڈ کو( امریکہ ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل مشاوری میکانزم فورم ) کو بھی متحرک دیکھا ہے ۔آپ نے ایک سوال چین کے حوالے سے بھی پوچھا، اس ضمن میں میرے خیال سے بھارت ماہرت کے ساتھ چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات بنائے رکھے ہے۔حکمت عملی کے لحاظ سے کواڈی لیٹرل اور انڈو پیسفک چین پر دباؤ بنائے رکھنے میں کارگر ثابت ہورہے ہیں۔سفارتی سطح پر دو طرفہ تعلقات بنائے رکھنے کے لیے کام ہورہا ہے جبکہ چین پر دباؤ بنائے رکھنے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔
سوال :لیکن ایک عام تاثر ہے کہ کواڈ چین کو قابو میں رکھنے میں ناکام ثابت ہوا ہے؟
جواب : ایسا نہیں ہے ۔ یہ کارگر ثابت ہورہا ہے اور ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ اپنا کام کررہا ہے۔