ایک امریکی عہدیدار کے مطابق طالبان اور امریکہ کے وفود نے قطری دارالحکومت میں واضح اور پیشہ ورانہ مذاکرات کیے ہیں، دو روزہ ملاقات میں سیکورٹی اور دہشت گردی کے خدشات، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر بھی توجہ دی گئی۔
دوحہ میں ہفتے کے روز ہونے والی بات چیت 15 اگست کو طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان پہلی ملاقات تھی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اتوار کے روز کہا "امریکی وفد کے ساتھ بات چیت واضح اور پیشہ ورانہ تھی کہ جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ طالبان کو اس کے عمل پر پرکھا جائے گا نہ کہ اس کے الفاظ سے۔"
انہوں نے کہا کہ امریکی وفد نے سیکورٹی اور دہشت گردی کے خدشات اور امریکی شہریوں، دیگر غیر ملکی شہریوں اور ہمارے افغان شراکت داروں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق بشمول افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں خواتین اور لڑکیوں کی بامعنی شرکت پر توجہ دی۔
دونوں فریقوں نے براہ راست افغان عوام کو امریکہ کی مضبوط انسانی امداد کی فراہمی پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
وہیں، طالبان وفد نے اتوار کے روز دوحہ میں امریکی نمائندوں کے ساتھ میٹنگ کو نتیجہ خیز قرار دیا۔
انہوں نے کہا "انہیں امید ہے کہ یہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرے گی - نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی برادری۔"
- انخلا کے بعد دوحہ میں امریکہ اور طالبان کی پہلی ملاقات
- دوحہ مذاکرات کے بعد امریکہ نے کہا، طالبان کو ان کے عمل سے پرکھا جائے گا نہ کہ الفاظ سے
انہوں نے کہا کہ افغان وفد، جس کی قیادت افغان قائم مقام وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی نے کی، دوحہ میں مالی مدد کے لیے آیا جو بین الاقوامی شناخت کے ساتھ ہی آتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان وفد امریکہ سے اقتصادی پابندیاں ختم کرنے اور 10 ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں کو "منجمد" نہ کرنے کا مطالبہ بھی کررہا ہے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے افغانستان کی مدد منقطع ہونے کے بعد ملک معاشی بحران سے دوچار ہے۔
افغان وفود نے کہا ہے کہ اسے سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے اور ایک بڑھتے ہوئے معاشی اور انسانی بحران کے دوران افغانیوں کو خدمات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔