سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل معاملے میں مجرم قرار دیے گئے سابق پولیس افسر ڈیرک چوون کو سزا سنائے جانے کے دوران امریکہ کے مینیپولیس میں منگل کے روز سینکڑوں افراد 38 ویں اسٹریٹ اور شکاگو ایونیو کے چوراہے پر جمع ہوئے۔
گذشتہ سال 25 مئی کی شام اسی مقام پر سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن پر پولیس افسر ڈیوک چوون نے 8 منٹ 46 سیکنڈ تک اپنے گھٹنے ٹکائے رکھے تھے جس کے باعث جارج فلائیڈ کی دم گھٹنے سے موقع پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔
300 سے زائد افراد اس مقام پر جمع ہوئے اور فیصلہ سنائے جانے کے دوران اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اس دوران بہت سارے لوگوں کی آنکھیں نم تھیں اور انہوں نے فلائیڈ کی موت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔
اس دوران لوگوں نے 'بلیک لائیوز میٹر' کے نعرے لگائے اور امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا۔
فیصلے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔
جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ''منظم نسل پرستی پوری قوم کی روح پر ایک دھبہ ہے۔''
کملا ہیرس نے کہا ہے کہ ہمیں ابھی بھی نظام میں اصلاح کرنی ہوگی۔
فلائیڈ نے موت سے قبل پولیس افسر سے کہا تھا کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے، اسے چھوڑ دے لیکن ظالم پولیس افسر نے اپنے گھٹنے نہیں ہٹائے تھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال 25 مئی کی شام پولیس کو ایک گروسری شاپ سے کال آئی کہ کسی شخص نے اسے سگریٹ کے بدلے جعلی 20 ڈالر دیے ہیں جس کے بعد پولیس جائے موقع پر پہنچی اور فلائیڈ کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھانے لگی جبکہ فلائیڈ نے کہا کہ بند مقام پر اس کا دم گھٹتا ہے اور اس کے مزاحمت کے بدلے پولیس افسر نے فلائیڈ کی گردن پر اپنے گھٹنے رکھ دیے، جس سے اس کی موت ہو گئی تھی۔
فلائیڈ کے خاندان کے وکیل بین کرمپ نے اس فیصلے کو امریکی 'تاریخ کا اہم موڑ' قرار دیا ہے۔
انھوں نے ٹویٹ کیا کہ 'تکلیف دہ عمل سے گزر کر آخر کار انصاف حاصل ہوا' یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے احتساب کی ضرورت کے حوالے سے ایک واضح پیغام ہے۔
فلائیڈ کے قتل کے بعد پورے امریکہ میں مسلسل نسل پرستی مخالف احتجاج ہوئے۔