غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق دہائیوں تک سوڈان میں حکمرانی کرنے والے عمرالبشیر کو ہٹانے کے بعد یا اس سے پہلے بھی مظاہرین پر تشدد کرنے والے عہدیداروں کو اتنی بڑی سزا کی مثال نہیں ملتی۔
عدالت کے فیصلہ سے آگاہ کرتے ہوئے ایک وکیل کا کہنا تھا کہ جج نے مشرقی ریاست کسالہ کے مرکزی شہر سے خفیہ ایجنسی کے 27 اراکین کو سزائے موت سنائی جبکہ سزائے موت پانے والے دیگر دو ایجنٹس کا تعلق اسی شہر خاشم القربا سے تھا جہاں احتجاج کرنے والے استاد کو قتل کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جج نے 13 اہلکاروں کو قید کی سزا دی جبکہ 4 افراد بری ہوگئے، سزا پانے والے تمام افراد عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں۔
حکومتی ایجنسی کی حراست میں استاد احمد الخیر کی موت سابق صدر کے خلاف احتجاج میں شدت کا نقطہ آغاز بن گئی تھی جس کے حوالہ سے ان کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ حکومتی عہدیداروں نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ زہر خورانی سے وفات پاگئے ہیں لیکن سرکاری تفتیش میں تصدیق کی گئی کی وہ تشدد سے جاں بحق ہوئے۔
احمد الخیر کے بھائی سعد نے عدالتی فیصلہ کے بعد کہا کہ 'آج انصاف کی جیت کا دن ہے، تمام سوڈانیوں کی فتح اور انقلاب کے لیے فتح ہے۔'
سوڈان کے شہر اومدرمان میں عدالت کے باہر سیکڑوں افراد موجود تھے جو فیصلے کے منتظر تھے جن میں سے اکثر نے سوڈان کا قومی پرچم بھی تھاما ہوا تھا اور احمد الخیر کی تصاویر بھی لیے کھڑے تھے۔
عدالت کا فیصلہ آتے ہی وہاں پر موجود تمام شرکا نے جشن منانا شروع کردیا۔
سابق صدر عمرالبشیر کے خلاف احتجاج شروع کرنے والی سوڈانیز پروفیشنل ایسوسی ایشن (ایس پی اے) کا کہنا تھا کہ فیصلہ نے عدالیہ پر اعتماد کو بحال کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس فیصلہ سے انقلاب کا شہدا کو پہلا صلہ مل گیا ہے اور شہدا کے لیے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔'