رشی کیش مکھرجی بالی وڈ کے ایسے ’اسٹار میکر‘ کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں جنہوں نے دھرمیندر، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن، امول پالیکر، جیا بہادری جیسے فلمی ستاروں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔Hrishikesh Mukherjee 100th Birth Anniversary
رشی کیش کی پیدائش 30 ستمبر 1922 کو کلکتہ میں ہوئی تھی اور کلکتہ یونیورسٹی سے انہوں نے اپنی گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ انہوں نے ریاضی اور سائنس کے استاد کے فرائض انجام دیئے۔ 40 کی دہائی میں رشی کیش مکھرجی نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز نیو تھیئٹر میں بطور کیمرہ مین کیا۔
سال 1960 میں رشی کیش مکھرجی کی ایک اور فلم ’انوراگ‘ ریلیز ہوئی۔ بلراج ساہنی اور لیلا نائیڈو کی اداکاری والی اس فلم کی کہانی ایک ایسی شادی شدہ عورت کی ہے جس کا شوہر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اسے چھوڑکر اپنے گاؤں چلا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ فلم ناکام ثابت ہوئی لیکن نیشنل ایوارڈ کے ساتھ ہی اسے برلن فلم فیسٹول میں بھی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
سال 1966 میں فلم ’آشیرواد‘ رشی کیش مکھرجی کے کیریئر کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی جو سپرہٹ رہی تھی۔ اس فلم میں اشوک کمار پر فلمایا گیا گیت ’ریل گاڑی، ریل گاڑی‘ اُن دنوں کافی مقبول ہوا تھا۔ سال 1969 میں آئی فلم ’ستیہ کام‘ کا شمار رشی کیش مکھرجی کی ہدایت کاری والی اہم فلموں میں ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ فلم بھی ناکام رہی لیکن فلم بینوں کا ماننا ہے کہ یہ فلم رشی کیش مکھرجی کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔
جیا بہادری کے فلمی کیریئر میں فلمساز و ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی فلموں کا اہم رول رہا ہے۔ جیا کو پہلا بڑا موقع سال 1971 میں رشی کیش کی فلم ’گڈی‘ سے ہی ملا تھا۔ فلم گڈی کے بعد جیا بہادری رشی کیش کی پسندیدہ اداکارہ بن گئی تھیں اور انہوں نے جیا کے ساتھ باورچی، ابھیمان، چپکے چپکے اور ملی جیسی فلمیں بنائیں۔
سال 1970 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آنند‘ کا شمار رشی کیش کی سپرہٹ فلموں میں ہوتا ہے۔ اس فلم میں راجیش کھنہ نے آنند کا مرکزی کردار ادا کیا۔ فلم کے ایک منظر میں راجیش کھنہ کے ذریعہ ادا کردہ مکالمہ ’بابو موشائے، ہم سب رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں جس کی ڈور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے ،کون جانے کب کس کی ڈور کھنچ جائے یہ کوئی نہیں بتا سکتا‘کافی مقبول ہوا تھا۔
سال 1988 میں ریلیز ہوئی فلم ’ناممکن‘ کے ناکام ہونے کے بعد رشی کیش مکھرجی کو محسوس ہوا ہے فلمی دنیا میں پیشہ ورانہ طرز کچھ زیادہ ہی حاوی ہوگیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے تقریباً 10 برس تک فلموں سے دوری اختیار کرلی۔
رشی کیش مکھرجی کو اپنے فلمی سفر میں سات بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1960 میں ریلیز ہوئی فلم ’انورادھا‘ کے لئے انہیں بہترین فلمساز کے نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلموں میں نمایاں تعاون کے پیش نظر انہیں فلمی صنعت کے سب سے بڑے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور پدم وبھوشن سے بھی سرفراز کیا گیا۔
رشی دا نے ہندی سنیما کو ایک نئی جہت دی ہے۔ سماجی مسائل کو انہوں نے بہت خوبصورتی کے ساتھ پردے پر پیش کیا۔ وہ ایک سلجھے ہوئے انسان تھے۔ ان میں طنز و مزاح کمال کا تھا۔ انہوں نے جو کامیڈی فلمیں بنائی ہیں اس سے ان کے ذوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تین دہائیوں پر مشتمل اپنے فلمی سفر میں 13 کی فلمسازی اور 43 فلموں کی ہدایت کاری کی ہے۔ فلمسازی کے علاوہ انہوں نے کچھ فلموں کی ایڈیٹنگ اور کئی کی کہانی اور اسکرین پلے بھی لکھے۔
تین دہائیوں تک اپنی فلموں سے ناظرین کی تفریح کرنے والے عظیم فلمساز و ہدایت کار رشی کیش مکھرجی نے 27 اگست 2006 کو اس دنیا کو الوداع کہا۔