ممبئی: فلم کے مختلف شعبوں سے وابستہ فیروز خان صرف ایک اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ان کی اپنی الگ شناخت تھی،منفرد اسلوب تھا جو انہوں دیگر فن کاروں سے ممتاز کرتا ہے اور اس انفرادیت کو انہوں نے تاحیات برقرار رکھا۔ فیروز خان کی پیدائش 25 ستمبر 1939کو بنگلور میں ہوئی تھی۔ والد پٹھان جب کہ والدہ کا تعلق ایرانی نسل سے تھا۔ بنگلور سے بمبئی آئے تاکہ فلموں میں کام کر سکیں۔ہندوستانی فلم انڈسٹری کی خوش قسمتی رہی ہے کہ یہاں متعدد ایسے فن کارپیدا ہوئے جنہوں نے پردۂ سیمیں پر اپنی فنی صلاحیتوں اور ہمہ جہت اداکاری کی بدولت فلم انڈسٹری میں وہ مقام حاصل کیا’جو انہیں مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ بلاشبہ فیروز خان بھی ایک ایسے ہی فن کار تھے ’جنہوں نے اپنی ہمہ جہت اداکاری کی بدولت لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔
فلم انڈسٹری میں ان کی شناخت ایک اسٹائل آئی کون کے طور پر تھی۔ ان کی منفرد اداکاری اور شاہانہ انداز ہمیشہ لوگوں کے لئے باعث کشش رہی۔ وہ نہایت نفاست پسند انسان تھے۔ خوب صورت ملبوسات’قیمتی گاڑیوں ’عمدہ نسل کے گھوڑوں سے انہیں بے پناہ لگاؤ تھا’جس کا دیدار ان کی ہر فلم میں کیا جاسکتا ہے۔
فیروز خان نے اپنے کیریئر کی ابتداثانوی درجے کی فلموں سے کی۔1960میں انہوں نے’دیدی‘ نامی فلم میں بطور معاون اداکارکام کیا۔بعد ازاں کئی برسوں تک وہ بی اورسی گر یڈ فلموں میں کام کرتے رہے۔ لیکن یہ فیروز خان کی منزل نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ اور لگن کو برقرار رکھا اوراپنی الگ شناخت کے لئے کوشاں رہے۔سال 1965میں ریلیز ہونے والی فلم ’اونچے لوگ‘ان کے کیریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا۔پھر کامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔
بعد ازاں انہوں نے سپرہٹ فلم’آرزو‘میں بطور معاون اداکاربہترین کام کرکے خوب شہرت کمائی اور انہیں اول درجے کی فلموں میں کام ملنے کا راستہ ہموار ہوگیا۔سال 1969 میں فیروز خان کو”آدمی اور انسان“ میں بہترین اداکاری کے لئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فیروز خان نے خود کو اداکاری تک ہی محدود نہ رکھ کر فلم سازی اور ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا اور کامیاب بھی رہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اداکار سے زیادہ ہدایت کار اور فلم ساز تھے تو غلط نہ ہوگا۔سال 1975 میں انہوں نے اپرادھ نامی فلم بنائی جو زیادہ کامیاب تو نہ ہوسکی لیکن اسی سال جب انہوں نے فلم ’دھرماتما‘بنائی تو وہ سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اور ان کی شہرت و مقبولیت کا سبب بنی۔ اس فلم میں فیروز خان نے بطور ہدایت کار اور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس فلم میں افغانستان کے قدرتی مناظر کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا تھا۔
سال 1980 میں فیروز خان کی شہرہ آفاق فلم’قربانی‘ ریلیز ہوئی یہ فلم اس قدرہٹ ثابت ہوئی کہ اس فلم کی ہدایت کاری کے بعد ان کا شمار صف اول کے ہدایت کاروں میں ہونے لگا۔ اس فلم میں ایک نئی تکنیک سے متعارف کرایا گیا تھا ’جس میں ہالی ووڈ کی طرز پر گلاس کا استعمال کیا گیا۔ پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کو بھی انڈین فلم انڈسٹری میں متعارف کرانے والے فیروز خان ہی تھے۔نازیہ حسن نے اس فلم میں ”آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے“ گاکر لوگوں کو حیرت انگیز مسرت پر مجبور کردیا تھا اور ہر خاص وعام کے لبوں پر یہ گانا مچلتا رہا۔
ان کی ایک اور فلم جو اداکاری، تکنیک، فوٹوگرافی اور ہرزاویہ سے بہترین فلم تھی وہ تھی جاں باز۔اس پر بھی فیروز خان نے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ یہ فلم 1986 میں ریلیز ہوئی۔بعدازاں 1988میں ’دیاوان‘ 1992میں یلغار’1998میں پریم اگن 2003میں جانشین اور 2005میں ایک کھلاڑی ایک حسینہ بنائی۔ پریم اگن اور جانشین اور ایک حسینہ تھی،میں انہوں نے اپنے بیٹے اداکار فردین خان کو متعارف کرایا۔آخری عمرہی میں انہوں نے کامیڈی فلم ' ویلکم ' میں کام کیا۔ یہ ان کی آخری فلم تھی اس کے بعد سے وہ مستقل بیمار رہنے لگے۔
یہ بھی پڑھیں: فیروز خان نے بھارتی سنیما کو بیش بہا خزانہ عطا کیا
فیرو خان کو فلمی صنعت میں ان کی کارکردگی کے لئے سنہ 2000 میں فلم فیئر نے لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پردہ سیمیں اور ذاتی زندگی میں آن بان اور شان کے ساتھ چمکنے والا یہ ستارہ 27/اپریل 2009کو ڈوب گیا۔
یو این آئی