ETV Bharat / city

کشمیر: یوم شہداء پر خصوصی رپورٹ - Srinagar

جموں و کشمیر کی تاریخ میں 13 جولائی کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آج ہی کے روز سنہ 1931 میں کشمیری عوام نے سرینگر میں شخصی راج کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔

کشمیر: یوم شہداء پر خصوصی رپورٹ
author img

By

Published : Jul 13, 2019, 8:02 PM IST

شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے عام لوگوں پر گولیاں چلاکر 22 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ یہ لوگ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں قائم سینٹرل جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے تھے جہاں ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی شنوائی ہونے والی تھی۔

کشمیر: یوم شہداء پر خصوصی رپورٹ

مؤرخین کے مطابق عبدالقدیر نےچند روز قبل سرینگر کی جامع مسجد میں اچانک نمودار ہوکر ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی جس کے بعد شہر میں جگہ جگہ مطاہرے ہوئے تھے۔
حکام نےعبدالقدیر کو فوری طور گرفتار کیا تھا۔ وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے تھے اور بعض مورخین کے مطابق ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے جہاں انہوں نے کشمیری عوام کی بے بسی کی داستان سنی تھی۔

سینٹرل جیل کے باہر قتل عام کے بعد کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کے لیے تحریک نے زور پکڑ لیا۔

اس دن کو ریاست میں علیحدگی پسندوں سے لیکر مین اسٹریم سیاسی جماعتیں ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔

تیرہ جولائی کو جموں و کشمیر میں شہدا کو خراج پیش کرنے کے تئیں سرکاری تعطیل بھی ہے اور اس روز سیاسی رہنما مزار شہدا پر حاضر ہوکر شہداء کو خراج عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
سرکاری تقریب میں پولیس کا ایک دستہ شیدا کو گارڈ آف آنر پیش کرتا ہے۔
قوم پرست جماعت بی جے پی تاہم اس دن کو یوم شہدا تصور نہیں کرتی۔ بی جے پی کے رہنما جب اقتدار میں تھے تو انہوں نے سرکاری تقریب میں شمولیت اختیار نہیں کی جو انکی حلیف جماعت پی ڈی پی کیلئے باعث خفت بنا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہےچونکہ بی جے پی کا ووٹ بنک خطہ جموں کے ہندو اکثریت والے بعض اضلاع میں ہے اس لیے وہ آج کا دن منانے سے اعتراز کرتی ہے۔

بھاجپا کا ماننا ہے کہ مہاراجہ کا تعلق جموں سے تھا اور کشمیری عوام نے انکی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ گزشتہ برسوں سے بھاجپا اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ مہاراجہ کے جنم دن کو ریاست میں سرکاری طور عام تعطیل کے طور منایا جائے۔

بھاجپا نے پی ڈی پی کی مخلوط سرکار میں اس ضمن میں سنہ 2017 میں ریاستی قانون سازیہ میں ایک قراداد پیش کی تھی جس پر ریاست میں کافی سیاسی اتھل پتھل ہوئی تھی۔

تاہم کشمیر کی سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر ان شہداء کو خراج پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی سے ریاست میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔

وہیں دوسری طرف سے علیحدگی پسندوں کا ماننا ہے کہ 13 جولائی کے شہداء کا مشن پوری طرح پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا ہے۔

عام شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ 13 جولائی کی ہلاکتوں سے شخصی راج کا خاتمہ ہوا۔

شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے عام لوگوں پر گولیاں چلاکر 22 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ یہ لوگ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں قائم سینٹرل جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے تھے جہاں ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی شنوائی ہونے والی تھی۔

کشمیر: یوم شہداء پر خصوصی رپورٹ

مؤرخین کے مطابق عبدالقدیر نےچند روز قبل سرینگر کی جامع مسجد میں اچانک نمودار ہوکر ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی جس کے بعد شہر میں جگہ جگہ مطاہرے ہوئے تھے۔
حکام نےعبدالقدیر کو فوری طور گرفتار کیا تھا۔ وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے تھے اور بعض مورخین کے مطابق ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے جہاں انہوں نے کشمیری عوام کی بے بسی کی داستان سنی تھی۔

سینٹرل جیل کے باہر قتل عام کے بعد کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کے لیے تحریک نے زور پکڑ لیا۔

اس دن کو ریاست میں علیحدگی پسندوں سے لیکر مین اسٹریم سیاسی جماعتیں ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔

تیرہ جولائی کو جموں و کشمیر میں شہدا کو خراج پیش کرنے کے تئیں سرکاری تعطیل بھی ہے اور اس روز سیاسی رہنما مزار شہدا پر حاضر ہوکر شہداء کو خراج عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
سرکاری تقریب میں پولیس کا ایک دستہ شیدا کو گارڈ آف آنر پیش کرتا ہے۔
قوم پرست جماعت بی جے پی تاہم اس دن کو یوم شہدا تصور نہیں کرتی۔ بی جے پی کے رہنما جب اقتدار میں تھے تو انہوں نے سرکاری تقریب میں شمولیت اختیار نہیں کی جو انکی حلیف جماعت پی ڈی پی کیلئے باعث خفت بنا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہےچونکہ بی جے پی کا ووٹ بنک خطہ جموں کے ہندو اکثریت والے بعض اضلاع میں ہے اس لیے وہ آج کا دن منانے سے اعتراز کرتی ہے۔

بھاجپا کا ماننا ہے کہ مہاراجہ کا تعلق جموں سے تھا اور کشمیری عوام نے انکی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ گزشتہ برسوں سے بھاجپا اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ مہاراجہ کے جنم دن کو ریاست میں سرکاری طور عام تعطیل کے طور منایا جائے۔

بھاجپا نے پی ڈی پی کی مخلوط سرکار میں اس ضمن میں سنہ 2017 میں ریاستی قانون سازیہ میں ایک قراداد پیش کی تھی جس پر ریاست میں کافی سیاسی اتھل پتھل ہوئی تھی۔

تاہم کشمیر کی سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر ان شہداء کو خراج پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی سے ریاست میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔

وہیں دوسری طرف سے علیحدگی پسندوں کا ماننا ہے کہ 13 جولائی کے شہداء کا مشن پوری طرح پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا ہے۔

عام شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ 13 جولائی کی ہلاکتوں سے شخصی راج کا خاتمہ ہوا۔

Intro:جموں و کشمیر کی تاریخ میں 13 جولائی کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آج ہی کے روز سنہ 1931 میں کشمیری عوام نے سرینگر کے شہر خاص میں احتجاج کرکے شخصی راج کے خلاف آواز آٹھائی تھی۔



Body:شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے احتجاجیوں پر گولیاں چلاکر 22 مظاہرین کو ہلاک کیا تھا۔

مئورخین کا ماننا ہے کہ مظاہرین میں افغان نزاد شہری عبدالقدیر کی اس روز ایک کیس کے متعلق سرینگر کے رعناواری علاقے میں واقع سینٹرل کے پاس سنوائی تھی، جس کی حمایت میں عام لوگ جمع ہوئے تھے۔ جس دوارن پولیس نے ان پر گولیا چلائی۔

اس واقع سے کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کیلئے تحریک نے زور پکڑ لیا۔

اس دن کو ریاست میں علیحدگی پسندوں سے لیکر مینسٹریم سیاسی جماعتیں ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں، اور تمام سیاسی جماعتیں، بغیر بھاجپا، تاریخ کے اس واقعے پر متفق ہیں۔ سرکاری طور اس روز ہر سال پوری ریاست میں تعطیل ہوتی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہےچونکہ بھاجپا کا ووٹ بنک جموں صوبے کے چند اضلاع، جہاں ڈوگرہ آبادی کی ایک اچھی تعداد موجود ہیں، میں ہے اسلئے وہ آج کا دن منانے سے انحراف کرتی ہے۔

بھاجپا کا ماننا ہے کہ مہاراجہ جموں کے ڈوگرہ تھے تو کشمیری عوام نے انکی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ گزشتہ برسوں سے بھاجپا اس بات پر زور دیتی آئی ہیں کہ مہاراجہ کے جنم دن کو ریاست میں سرکاری طور عام تعطیل کے طور منایا جائے۔

بھاجپا نے پی ڈی پی کی مخلوط سرکار میں اس ضمن میں سنہ 2017 میں ریاستی قانون سازیہ میں ایک قراداد منظور کرائی تھی جس پر ریاست میں کافی سیاسی اتھل پتھل ہوئی تھی۔

تاہم کشمیر کی سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر ان شہداء کو خراج پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی سے ریاست میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔

وہیں دوسری طرف سے علیحدگی پسندوں کا ماننا ہے کہ 13 جولائی کے شہداء کا مشن پوری طرح پایہ تکمیل نہیں پہنچا ہے۔

عام شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ 13 جولائی کی ہلاکتوں سے شخصی راج کا خاتمہ ہوا، تاہم آج بھی عوام کو ازئیتوں اٹھانی پڑتی ہیں۔







Conclusion:byte:: Altaf Hussain, Senior journalist

Muhammad Sadiq, local resident
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.