سرینگر کے مضافات میں، محمد سلطان کا خاندان بھنی ہوئی مچھلیاں کام میں بڑی ہی تندہی سے لگے ہوئے ہیں، کیونکہ کہ یہ موسم سرما کے دوران ان کی کمائی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
ڈل جھیل سے محمد سلطان تازہ مچھلیاں پکڑتے ہیں پھر ان مچھلیوں کی صاف صفائی کے بعد انہیں سکھایا جاتا ہے۔جس کے بعد ان مچھلیوں کو روایتی طور پر بھنا Smoked fish جاتا ہے جسے لوگ بڑی ہی شوق سے کھاتے ہیں۔ان مچھلیوں کے بھنے کا وہ روایتی طریقہ جو سلطان برسوں سے اختیار کیے ہوئے ہیں وہ بھی قابل دید ہے۔
محمد سلطان کے مطابق 'سب سے پہلے مچھلیاں لائی جاتی ہے، جس کے بعد ان مچھلیوں کو صاف کیا جاتا ہے۔صاف ہونے کے بعد ان مچھلیوں پھر ایک خشک گھاس کی بنی پلیٹ فارم پر خشک کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ بعد میں اس خشک گاس کو آگ لگائی جاتی ہے۔ آگ کو دو گھنٹے تک جلایا جاتا ہے۔ اگر کوئی مچھلی پوری طرح سے تیار نہیں ہو تو ان کو پھر سے آگ میں جلایا جاتا ہے۔'
محمد سلطان کے مطابق مارکیٹ میں دن بدن مانگ میں کمی کے باعث اب اس کاربار میں بھی کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ ان کے مطابق پُرانی باشندے میں پکوان زیادہ مقبول ہیں۔ اس پکوان کو زیادہ تر ساگ( کشمیری ہاکھ) کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔
کشمیر میں موسم سرما winter In Kashmir کے دوران منفی درجہ حرارت میں اس خاص پکوان کا استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے کھانے سے جسم میں گرمی پیدا ہوتی ہے۔
سلطان کا کہنا ہے کہ ان پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اس خاص پکوان کو ملک کی دیگر ریاستوں میں فروخت کریں۔
مزید پڑھیں:لکھنؤ کی ادریس بریانی دنیا بھر میں کیوں ہے مشہور؟
محمد سلطان کے مطابق اب ان کے بچے اس کام میں دلچسپی نہیں رکھتے ، کیوں کہ ایک تو یہ محنت والا کام ہے اور دوسا یہ کہ اس کام کو لوگ کمتر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے کئی خاندان اس کام کے ساتھ وابستہ تھے تاہم اب صرف چند گھر ہی اس کام کو وادی میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔