جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما عمر عبداللہ نے منگل کے روز اپنا موقف واضح کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کبھی مرکزی زیر انتظام علاقے کو دوبارہ سے ریاست کا درجہ دینے کی مانگ نہیں کی۔
سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کے ذریعے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اگر میرے کچھ کرنے یا کہنے سے کوئی رضامند نہ ہو مجھے اس بات کا گلہ نہیں ہوتا۔ جب آپ چیزیں ایجاد کرتے ہو اور مجھ پر حملہ کرنے کے لئے میرے منہ میں الفاظ ڈالتے ہو تب وہ میرے سے زیادہ آپ کے بارے میں ہو جاتا ہے۔ میں سب سست صحافیوں اور تبصرہ نگاروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے دکھائیں میں نے کہا پر جموں و کشمیر کو دوبارہ سے ریاست کا درجہ واپس کرنے کی مانگ کی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ "میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کا وزیراعلیٰ رہنے کے بعد میں مرکزی زیر انتظام جموں و کشمیر کی اسمبلی کے لئے انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا۔ یہیں بات تھی۔ نہ کم نہ زیادہ! یہ کہنا بہت دور کی بات ہے کہ میں نے ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔"
عمر نے مزید کہا کہ "نفرت کرنے والوں سے نفرت کی اُمید ہے اور کچھ بھی اس کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن سے میں نے بہت توقع کی تھی لیکن مایوسی سیاست کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ رہنا بھی سیکھا ہے۔ زندگی اسی کا نام ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: 'سیاسی جمود ختم کرنے کے لئے ریاستی درجہ بحال کرنا ناگزیر'
قابل ذکر ہے کہ عمر عبداللہ کا ٹویٹر پر بیان نیشنل کانفرنس کے ترجمان اور تین بار رکن اسمبلی رہے آغا روح اللہ کے استفعی کے کچھ دیر بعد آیا۔
آغا روح اللہ نے پارٹی کے ترجمان کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ جاری کرتے ہوئے کہا کہ "میں نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا ہے اور اب سے میرے بیانات کو پارٹی کے بیانات نہ سمجھا جائے۔"
اس سے قبل انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ "گزشتہ برس پانچ اگست کو جو ہوا وہ ریاست کے درجے تک ہی محدود نہیں بلکہ بہت بڑی بات ہے۔ اور ریاست کی بحالی آخری مطالبہ ہونا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "عمر نے ایک قومی اخبار میں شائع مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ دفعہ 370 کو عدالت میں لڑا جائے گا اور ریاست کی بحالی کے لیے مطالبہ رکھا جائے گا۔ ہمارا مطالبہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال ہونی چاہیے۔