انہوں نے کہا :' رام ولاس پاسوان حریت والوں کے دروازوں پر کھڑا رہا انہوں نے دروازے نہیں کھولے، لیکن وہ اب بات چیت کے لئے تیار ہیں، سب لوگوں میں بہت فرق آیا ہے'۔
ستیہ پال ملک نے کہا: 'جب میں یہاں آیا تو میں نے طے کیا کہ میں انٹیلی جنس کی اطلاعات پر منحصر نہیں رہوں گا، میں نے یہاں کے نوجوانوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور ان سے مجھے یہاں کی بیماریاں معلوم ہوئیں، یہاں بیماریاں بہت ہیں لیکن وہ بیماریاں حل کی جاسکتی ہیں، یہاں کا بیانیہ بدلا جاسکتا ہے لیکن نیت ٹھیک ہونی چاہئے ہماری بھی اور سامنے والے کی بھی'۔
موصوف گورنر نے دعویٰ کیا کہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں بھرتی لگ بھگ بند ہوگئی ہے اور جمعہ کے روز جو پتھراؤ ہوجاتا تھا وہ بھی لگ بھگ بند ہوگیا ہے'۔
انہوں نے کہا : 'ہم کو بالکل اچھا نہیں لگتا ہے جب کوئی نوجوان یہاں مرتا ہے، ہم اس کو واپس لانا چاہتے ہیں، مرکز بھی نوجوانوں کی واپسی کے لیے اسکیم بنانے پر غور کررہا ہے لیکن جب گولی چلے گی تو اس میں گلدستہ نہیں دیا جاسکتا، گولی کے بدلے جنرل صاحب گولی ہی دیں گے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ جموں کشمیر ملک کی سب سے بہترین ریاست بن سکتی ہے، یہاں الگ جھنڈا ہے الگ آئین ہے لیکن نیک نیتی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ستیہ پال ملک نے کہا ریاست میں منشیات کی بڑھتی وبا قابل افسوس بات ہے۔ سماج کے اندر اس بڑھتے وبا پر علحیدگی پسند رہنما میر واعظ محمد عمر فاروق کی آواز بلند کرنا قابل ستائش ہے۔