سنہ 2017 میں پبلک سروس کمیشن نے کشمیری زبان میں 49 اسسٹنٹ پروفیسرز کی اسامیوں کو پوار کرنے کے لیے نوٹیفیکشن جاری کر دی تھی، تاہم کمیشن کی جانب سے صرف 26 اسامیاں پُر کی گئیں جبکہ 23 اسامیوں کو خالی رکھا گیا۔
ای ٹی بھارت سے بات کرتے ہوئے ان امیدواروں نے کہا کہ کمیشن نے ڈوگری اور پنجابی زبان میں تمام اسامیاں پُر کر دی اور امیدواروں کی بھرتی کو یقینی بنانے کے لیے کمیشن نے بھرتی کے ضابطوں میں انٹرویو کے بعد کٹ آف میں ترمیم کی۔ جبکہ کشمیری زبان میں اسامیوں کو پُر نہیں کیا گیا، جوکہ سراسر نا انصافی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ڈوگری اور پنجابی زبان میں کمیشن نے تمام اسامیاں پوری کردی ہیں اور امیدواروں کی تقرری یقینی بنانے کے لیے کمیشن نے بھرتی کے ضابطوں میں انٹرویو کے بعد کٹ آف میں ترمیم کی۔
امیدواروں نے کہا کہ کشمیری زبان ریاست کے 50 کالجز میں پڑھائی جاتی ہے، جبکہ پنجابی اور ڈوگری زبانیں جموں کے چند کالجز میں ہی پڑھائی جاتی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ ڈوگری اور پنجابی میں منتخب ہوئے امیدواروں کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں، تاہم کمیشن کو کشمیری زبان کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں؟
اس مسئلے پر جب ای ٹی وی بھارت نے پبلک سروس کمیشن کے سکریٹری راجیش شرما سے بات کی، انہوں کیمیرے کے سامنے بات کرنے سے معذرت ظاہر کی۔
تاہم کمیشن میں عہدیداروں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ کشمیری زبان کے امیدواروں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چند ممبران نے امیدواروں کا انٹرویو لیا ہے انہوں نے زیادتی اور نا انصافی کی ہے۔
واضح رہے کہ ریاست میں کشمیری زبان 70 لاکھ لوگوں کی مادری زبان ہے اور اسکے بولنے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔