ایک طرف جہاں حکومت اور سرکاری افسران لوگوں کو پینے کا صاف پانی پلانے کو لے کر بلند بانگ دعوے کررہے ہیں تو وہیں دوسری جانب زمینی سطح ان دعوؤں کی قلعی کھول رہی ہے۔ لوگوں میں اس بات کو لے کر غصہ کا ماحول ہے کہ انہیں صاف پانی پلانے کے نام پر گندہ پانی پلایا جارہا ہے۔
اس سلسلے میں تازہ معاملہ گاندربل کا ہے، جہاں وڈر بدرکنڈ کے پاس ایک ایسا تالاب ہے جسے چالیس ہزار کے نام سے جانا جاتا ہے، اس تالاب میں پانی جمع رکھ کر سرینگر سپلائی کرنے کے بعد یہ پانی سرینگر شہر اور گاندربل کے لاکھوں لوگوں کو پلایا جاتا ہے۔
جب مقامی لوگوں سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس تالاب کا پانی گندہ اور زہر آلود ہوچکا ہے۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ اس کے اندر مردہ کتے اور جانور پائے گئے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق اس تالاب کی صفائی گزشتہ دس سالوں سے نہیں کی گئی ہے۔ اور اس تالاب سے سپلائی ہونے والا گندہ اور زہر آلود پانی سرینگر اور گاندربل کے لاکھوں لوگوں کو پلاکر ان کی زندگی سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔
اس معاملے کو لے کر جب ای ٹی وی بھارت نے متعلقہ محمکہ یعنی این جی ایچ ای پی کے اعلیٰ آفیسر نواب احمد سے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا ہے کہ میرے پاس جو پانی پرنگ کنگن سے لےکر اس تالاب تک آتا ہے۔ وہ فاصلہ تقریباً سولہ کلو میٹر کا ہے اور اس فاصلے پر بہت سی جگہوں پر گیٹ لگاۓ گئے ہیں۔ جن کو پانی کا پریشر یا پانی کی کتنی ضرورت ہے اس کو مدنظر رکھ کر اپ ڈاؤن کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تالاب سے پانی ایرگیشن اور پی ایچ ای محکمہ کے پاس چلا جاتا ہے۔ جبکہ گیٹ کو اپ ڈاؤن کرتے وقت کچرہ بھی تالاب میں آتا ہے اور جمع ہونے کے بعد ہم اس کی صفائی کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو پانی پلانے کا کام جل شکتی محکمہ کا ہے۔ وہ لوگوں کو بغیر فلٹر یا فلٹر کرکے پانی فراہم کریں یہ ذمہ داری بھی جل شکتی محکمہ کی ہے۔