سرینگر کی بابہ ڈیم نہر کے بیچوں بیچ واقع یہ پر کشش منظر پیش کرتا ہے۔
اس منگلییشور مندر کی دیکھ ریکھ میں ہندو وں کے ساتھ مقامی مسلمان اور سکھ بھی برادری بھی شامل ہیں۔
شاہ جی بھٹ، آنند پال سنگھ اور ریاض احمد اس مندر میں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کام کر تے ہیں۔ یہ تینوں یہاں آنے والے ہر ایک عقیدت مندوں کو نہر کے کنارے سے لانے لے جانے تک کے علاوہ ضرورت کی ہر چیز مہیا کرانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
منگلییشور مندر میں پوجا ارچنا کے لیے نہ صرف مقامی بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں سے بھی عقیدت مند آتے ہیں جو اس آپسی بھائی چارے کو دیکھ کر کافی متاثر ہوتے ہیں۔
آنند پال سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں آنے والے عقیدت مند ہندو مسلم سکھ اتحاد کو دیکھ کر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہی کہ کشمیر اسی کا تو نام ہے۔
ریاض احمد کا کہنا ہے کہ وادی کشمیرمیں ہندو مسلم اور سکھ اتحاد تین پھولوں کے مانند ہے۔ آپسی بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی ہی اس سر زمین کا دوسرا نام ہے۔
وادی کشمیر کے اس آپسی بھائی چارے اور ہندو مسلم سکھ اتحاد کے اس مضبوط رشتے پر نا مسائد حالات یا کوئی سیاسی بحران کبھی حاوی نہیں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کشمیر ہمیشہ سے ہی مذہبی روادی اور آپسی میل میلاپ کا گہوارہ رہا ہے۔