خشک گھاس سے بنائی گئی چٹائیاں جسے کشمیری زبان میں وگو Waguw کہا جاتا ہے، یہ کشمیر کی ایک قدیم اور روایتی دستکاری میں سے ایک ہے۔ وگو کا استعمال ایک زمانے میں وادی کشمیر میں Waguw in Kashmir کثرت سے کیا جاتا تھا۔ گرمی ہو یا سردی وادی کے مکانات، ہاؤس بوٹ اور دیگر مقامات کے فرش وگو سے سجے ہوتے تھے۔
ان چٹائیوں کا استعمال موسم سرما کے دوران کافی زیادہ ہوتا ہے اس کے علاوہ مختلف میوہ جات خاص طور پر خوبانیاں سکھانے کے لیے بھی اس چٹائی کا استعمال کرتے ہیں۔
لیکن زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ جہاں ایک طرف مکینوں کے طرز حیات میں تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں مکانوں کے فرش پر بھی قالین اور دوسرے اقسام کی چٹائیاں بچھنے لگی، جس سے وگو کی مانگ Demand of Waguw آہستہ آہستہ ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی۔
ان سب مشکلات کے باوجود وادی کے چند گھروں نے اس کام کو زندہ رکھنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور حال ہی دونوں میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے بھی کارخانہ ڈار اسکیم Waguw craft under karkhandar scheme کے تحت وگو کاریگروں کی مدد کی ہے جس کی وجہ سے ڈل جھیل کے مضافات میں رہنے والی مالا بیگم اس اسکیم سے مستفید ہونے والی کو پہلی خاتون ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مالا بیگم نے کہا کہ پہلے وگو کی کافی مانگ ہوتی تھی لیکن آج اتنی نہیں ہے۔ بس ہمیں اس کام سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے، یہ ہمارا پشتینی کام ہے۔ انتظامیہ نے کافی تعاون دیا اور ہم کو اُمید ہے کہ ہماری آمدنی اور کام میں اب اضافہ ہوگا۔ اگر چہ ہماری نئی نسل اس کام میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے ہیں لیکن اُمید ہے کہ آنے والے دور میں اُن کا رجحان اس طرف مائل ہوگا۔"
مالا کے فرزند ضمیر احمد بٹ کا کہنا ہے کہ ’’میں پہلے ناؤ چلاتا تھا، میں نے محسوس کیا کہ ناؤ میں آج بھی وگو کا ہی استعمال ہوتا ہے۔ یہ ہمارا پشتینی کام تھا تو میں نے اس کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کچھ کرنے کا سوچا ہے اور انتظامیہ سے اچھا رسپانس بھی مل رہا ہے۔کام کافی کم ہے لیکن اب بہتر ہونے کی اُمید ہے‘‘
وگو کو تیار کرنے میں کافی زیادہ محنت و مشقت درکار ہوتی ہے، اور اس کام میں ایک مکمل پروسیز کو فالو کیا جاتا ہے لیکن محنت کے بنسبت زیادہ روپئے نہیں مل پاتے ہیں۔
- یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں موسم سرما کی اپنی ایک الگ اہمیت اور انفرادیت
مالا بیگم کی ساتھی طاہرہ بیگم کا کہنا ہے کہ یہ بہت محنت والا کام ہے، پہلے اس خاص قسم کی گھاس کو کاٹا جاتا ہے، پھر پانی میں بھگو کر رکھا جاتا ہے اور سکھایا جاتا ہے۔اس کے بعد اس کو وگو بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں وگو کی کافی ڈیمانڈ تھی لیکن اب بس گزارا ہوجاتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہماری نئی نسل کو اس کام میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام ختم ہونے کے قریب ہے، اُن کو یہ کام کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور وہ ہم کو بھی یہ کرنے سے روکتے ہیں۔ لیکن ہم یہ کام اپنے اخراجات برداشت کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اس پیشے سے وابستہ تمام افراد بوسیدہ اور پرانے مکانوں میں ہی رہائش پذیر ہیں، لیکن حالیہ دونوں میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے کارخانہ ڈار اسکیم کے تحت وگو کاریگروں کی حمایت اور مدد کی ہے۔ جس سے اس پیشے سے وابستہ افراد کو اُمید جگی ہے کہ اب انتظامیہ کی پیشکش سے اور اُن کی محنت سے اس کام کو پھر سے دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔