کل جماعتی حریت کانفرنس نے جموں و کشمیر کی تازہ ترین سیاسی صورتحال کو حد درجہ تشویشناک اور باعث اضطراب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہر و گام میں بڑے پیمانے پر فورسز کے جمع ہونے اور نقل و حمل سے عوام میں خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا ماحول پایا جارہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر کے طول و عرض میں لاکھوں فوجیوں اور فورسز کی موجودگی کے باوجود مزید فورسز کی تازہ کھیپ کے لانے پر چہار جانب بے چینی کی کیفیت پائی جارہی ہے۔
حریت کے رہنماؤں نے کہا کہ اخباری اطلاعات اور میڈیا رپورٹس کے مطابق سردی کے ان ایام میں یہ فورسز جگہ جگہ ناکہ لگا کر نہ صرف عام راہ گیروں اور لوگوں کی جامہ تلاشی لے کر انہیں تنگ کر رہی ہیں بلکہ اچانک مختلف علاقوں کا کریک ڈاؤن کرکے بلا لحاظ مرد و خواتین شناختی پریڈ کرائے جارہے ہیں۔
حریت کے رہنماؤں نے زور دے کر کہی کہ جموں و کشمیر ایک انسانی اور سیاسی مسئلہ ہے اور اسے اُسی تناظر میں فریقین کے مابین جامع مذاکرت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے، نہ کہ جبر و قہر کی پالیسیوں کے نفاذ اور نہ ہی فوجی طاقت کے بل پر۔
بیان میں کہا گیا کہ گرفتاریوں، ہراسانیوں، ظلم و تشدد، انسانی حقوق کی مسلسل پامالیاں ہر لحاظ سے افسوسناک اور قابل مذمت ہیں۔
حریت کے رہنماؤں نے حکام کی جانب سے جموں و کشمیر کی سب سے بڑی عبادت گاہ اور روحانی مرکز جامع مسجد سرینگر میں مسلمانان کشمیر کو 6 اگست2021 سے نماز جمعہ جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی سے جبراً روکنے کی کارروائی کو دین میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ ان اقدامات سےعوام کے دینی و مذہبی جذبات شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:جموں وکشمیر تنازعہ کے پُرامن حل کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے: حریت کانفرنس
بیان میں حریت چیرمین میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق جنہیں غیر قانونی طور پر 5 اگست 2019 سے ہی مسلسل نظر بند رکھا گیا ہے، ان سمیت تمام سیاسی رہنمائوں جن میں محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، ایڈوکیٹ شاہد الاسلام ، آسیہ اندرابی سمیت دیگ سینکڑوں نوجوان شامل ہیں اور جنہیں جموں وکشمیر کے علاوہ بھارت کی مختلف جیلوں میں مقید رکھا گیا ہے۔ اس معاملہ کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کیلئے ایک لمحہ فکریہ قرار دیتےہوئے میرواعظ سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ دہرایا گیا۔