ETV Bharat / city

Mumbai local body elections:بلدیاتی انتخابات میں مسلم ووٹ کی اہمیت

author img

By

Published : Nov 19, 2021, 10:31 PM IST

Updated : Nov 19, 2021, 10:45 PM IST

سماجوادی پارٹی ممبئی میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے مسلم علاقوں پراپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے کیونکہ اب سماجوادی پارٹی کی راہیں ہموار نظر آ رہی ہیں۔ اسی لئے ریاست میں مہا وکاس آگھاڈی کی تشکیل کے بعد سماجوادی پارٹی بلدیہ میں زیادہ سے زیادہ نمائندوں کو منتخب کرنا چاہتی ہے۔

مسلم ووٹ کی اہمیت
مسلم ووٹ کی اہمیت

ممبئی بلدیاتی انتخاب کو لیکر ہر پارٹی زوروشور سے اپنے منصوبوں کو لیکر عوام کے بیچ پہنچ رہی ہیں۔ چونکہ ریاست میں اس سے قبل شیوسینا بی جے پی اتحاد کے ساتھ بلدیاتی انتخاب میں حصہ لیتی تھیں اور اسی لئے طویل عرصے سے سینا بی جے پی ساتھ رہی لیکن مہا وکاس آگھاڈی کی تشکیل کے بعد اس بار شاید ممکن نہیں ہوگا کہ یہ دونوں بلدیاتی انتخاب میں ایک ساتھ ہوں۔

اب ایسے میں اہم سوال یہ ہے مسلمانوں کا ووٹ کس پارٹی کے حق میں جائیگا۔

مسلم ووٹ کی اہمیت

مذکورہ امور کے پیش نظر سماجوادی پارٹی ممبئی میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے مسلم علاقوں پراپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے کیونکہ اب سماجوادی پارٹی کی راہیں ہموار نظر آ رہی ہیں۔ اسی لئے ریاست میں مہا وکاس آگھاڈی کی تشکیل کے بعد سماجوادی پارٹی بلدیہ میں زیادہ سے زیادہ نمائندوں کو منتخب کرنا چاہتی ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے رہنما ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں یہ واضح کر دیا ہے کہ " کرپشن فری اور ٹینشن فری" کے فنڈے کے ذریعه مسلم ووٹ بینک کا مطالبہ ہے

اعظمی نے کہا کہ مسلمانوں کے بنیادی تعلیم .طبی سہولتیں .قبرستان سمیت دیگر کئی مسائل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا بلدیاتی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے نمائندے عوام کی سوچ پر کھرا اترنے کی کوشش کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عوام نے بلدی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے نمائندوں کو خدمت کا مو قع دیگی تو ہمارے نمائندے بلدیہ سطح پر مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور ان کے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھائینگے۔

انہوں نے کہا کہ آج مسلمانوں کی ووٹوں کی ضروروت ہر سیا سی جماعت کو ہے ۔مگر ان کے مسائل سے کسی کو کوئی سرو کار نہیں ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی معاشی دارلحکومت ممبئی میں ووٹوں کے لحاط سے 25 فیصد ووٹ مسلمانوں کے ہیں۔ مگر یہاں بھی مسلمانوں کی حالت بہتر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ممبئی بڑی آبادی والا شہر ہے ۔اعداد و شمار کی بنیاد پر ممبئی نے ایشیا کے کئی شہروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ممبئی میں بڑھتی آبادی نے 2 کروڑ کے عدد کو پار کرلیا ہے ۔ اس شہر میں مسلم بستیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار پر غور کریں تو فی الوقت ممبئی کی آبادی کا بائیس فیصد حصہ مسلمانوں کا ہے ۔اس لئے شہر کے مسلمان ہمیشہ ووٹ بینک کے طور پر استعمال ہوتے آرہے ہیں ۔

ممبئی کے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں میں سہولیات کا فقدان ہے ان مسلم اکثریتی علاقوں میں سے کئی بڑے رہنما منتخب ہوتے ہیں ۔مگر مسائل کا حل کرنے کے بجائے الزام تراشی میں مصروف رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ممبئی کی غیر مراٹھی سیاست میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا خاصا اثر و رسوخ ہے ۔ اس رسوخ کو توڑنے کی کوشش مراٹھی اور دیگر ریاست سے آکر بسے لوگوں نے کئی بار کی ۔ ممبئی میں شمالی ہند مسلم لیڈر شپ کے سامنے غیر مسلم شمالی ہند لیڈرشپ بھی کئی مرتبہ جھکنے کو مجبور ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں اہم سیاسی پارٹی کانگریس ،این سی پی بھی شمالی ہند کے مسلم لیڈر شپ کو ہی حکومت اور تنظیم میں نہ صرف اہم جگہ دیتی ہیں بلکہ انتخاب لڑنے کا بھرپور موقع بھی عنایت کرتی ہیں ۔ اس کے باوجود ممبئی میں رہائش پذیر شمالی ہند کے مسلمانوں کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔

مزید پڑھیں:امراؤتی تشدد میں مسلمانوں کو ملوث قرار دینا رانا کا بے بنیاد الزام: ابو عاصم اعظمی

انہوں نے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ وارڈ ، اسمبلی یا پارلیمانی حلقوں میں ترقیاتی فنڈ اگر ہر جگہ برابر پہنچتی ہے تو مسلم علاقوں کی ترقی ہی کیوں اٹک جاتی ہے ؟ مسلم سیاست کے دبدبہ کا تازہ ثبوت شہر کی تاریخ کی سیاست رہی ہے ۔

ممبئی بلدیاتی انتخاب کو لیکر ہر پارٹی زوروشور سے اپنے منصوبوں کو لیکر عوام کے بیچ پہنچ رہی ہیں۔ چونکہ ریاست میں اس سے قبل شیوسینا بی جے پی اتحاد کے ساتھ بلدیاتی انتخاب میں حصہ لیتی تھیں اور اسی لئے طویل عرصے سے سینا بی جے پی ساتھ رہی لیکن مہا وکاس آگھاڈی کی تشکیل کے بعد اس بار شاید ممکن نہیں ہوگا کہ یہ دونوں بلدیاتی انتخاب میں ایک ساتھ ہوں۔

اب ایسے میں اہم سوال یہ ہے مسلمانوں کا ووٹ کس پارٹی کے حق میں جائیگا۔

مسلم ووٹ کی اہمیت

مذکورہ امور کے پیش نظر سماجوادی پارٹی ممبئی میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے مسلم علاقوں پراپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے کیونکہ اب سماجوادی پارٹی کی راہیں ہموار نظر آ رہی ہیں۔ اسی لئے ریاست میں مہا وکاس آگھاڈی کی تشکیل کے بعد سماجوادی پارٹی بلدیہ میں زیادہ سے زیادہ نمائندوں کو منتخب کرنا چاہتی ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے رہنما ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں یہ واضح کر دیا ہے کہ " کرپشن فری اور ٹینشن فری" کے فنڈے کے ذریعه مسلم ووٹ بینک کا مطالبہ ہے

اعظمی نے کہا کہ مسلمانوں کے بنیادی تعلیم .طبی سہولتیں .قبرستان سمیت دیگر کئی مسائل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا بلدیاتی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے نمائندے عوام کی سوچ پر کھرا اترنے کی کوشش کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عوام نے بلدی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے نمائندوں کو خدمت کا مو قع دیگی تو ہمارے نمائندے بلدیہ سطح پر مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور ان کے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھائینگے۔

انہوں نے کہا کہ آج مسلمانوں کی ووٹوں کی ضروروت ہر سیا سی جماعت کو ہے ۔مگر ان کے مسائل سے کسی کو کوئی سرو کار نہیں ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی معاشی دارلحکومت ممبئی میں ووٹوں کے لحاط سے 25 فیصد ووٹ مسلمانوں کے ہیں۔ مگر یہاں بھی مسلمانوں کی حالت بہتر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ممبئی بڑی آبادی والا شہر ہے ۔اعداد و شمار کی بنیاد پر ممبئی نے ایشیا کے کئی شہروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ممبئی میں بڑھتی آبادی نے 2 کروڑ کے عدد کو پار کرلیا ہے ۔ اس شہر میں مسلم بستیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار پر غور کریں تو فی الوقت ممبئی کی آبادی کا بائیس فیصد حصہ مسلمانوں کا ہے ۔اس لئے شہر کے مسلمان ہمیشہ ووٹ بینک کے طور پر استعمال ہوتے آرہے ہیں ۔

ممبئی کے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں میں سہولیات کا فقدان ہے ان مسلم اکثریتی علاقوں میں سے کئی بڑے رہنما منتخب ہوتے ہیں ۔مگر مسائل کا حل کرنے کے بجائے الزام تراشی میں مصروف رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ممبئی کی غیر مراٹھی سیاست میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا خاصا اثر و رسوخ ہے ۔ اس رسوخ کو توڑنے کی کوشش مراٹھی اور دیگر ریاست سے آکر بسے لوگوں نے کئی بار کی ۔ ممبئی میں شمالی ہند مسلم لیڈر شپ کے سامنے غیر مسلم شمالی ہند لیڈرشپ بھی کئی مرتبہ جھکنے کو مجبور ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں اہم سیاسی پارٹی کانگریس ،این سی پی بھی شمالی ہند کے مسلم لیڈر شپ کو ہی حکومت اور تنظیم میں نہ صرف اہم جگہ دیتی ہیں بلکہ انتخاب لڑنے کا بھرپور موقع بھی عنایت کرتی ہیں ۔ اس کے باوجود ممبئی میں رہائش پذیر شمالی ہند کے مسلمانوں کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔

مزید پڑھیں:امراؤتی تشدد میں مسلمانوں کو ملوث قرار دینا رانا کا بے بنیاد الزام: ابو عاصم اعظمی

انہوں نے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ وارڈ ، اسمبلی یا پارلیمانی حلقوں میں ترقیاتی فنڈ اگر ہر جگہ برابر پہنچتی ہے تو مسلم علاقوں کی ترقی ہی کیوں اٹک جاتی ہے ؟ مسلم سیاست کے دبدبہ کا تازہ ثبوت شہر کی تاریخ کی سیاست رہی ہے ۔

Last Updated : Nov 19, 2021, 10:45 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.