ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے۔
اردو دنیا کے ممتاز شاعر و ادیب فیض احمد فیض کی یہ نظم اُس وقت بحث کا موضوع بن گئی جب متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آئی آئی ٹی کانپور میں طلبا و طالبات نے احتجاج کے دوران فیض کی اس انقلابی نظم کو پڑھا تو ایک مخصوص فکر کے حامل افراد نے اس پر اعتراض کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں فیض کی اس نظم کے خلاف ایک محاذ ہو گیا۔
کچھ لوگوں کی جانب سے اس نظم کو ملک مخالف قرار دیا جانے لگا، اور پھر پورے ملک میں اس انقلابی نظم کی گونج سنائی دینے لگی، فلمی دنیا سے لیکر سیاست اور سیاست سے لیکر صحافت تک تمام حلقوں میں فیض کی اس نظم پر کافی مباحثے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
رامپور میں کل ہند مشاعرے کے موقع پر آئے معروف شعراء ڈاکٹر وسیم بریلوی اور انا دہلی سے اس متعلق جب ای ٹی وی نے بات کی تو وسیم بریلوی اس معاملے پر بولنے سے بچتے ہوئے نظر آئے اور صرف یہی کہا کہ شاعر اپنی بات شاعری میں کہتا ہے وہ سیاست سے دور رہتا ہے۔
جبکہ انا دہلوی نے اس پر کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'شاعر کسی ایک ملک کا نہیں ہوتا وہ پوری دنیا کا شاعر ہوتا ہے، شاعر پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، ایک شعر بھی کسی کا کامیاب ہوتا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے'۔ 'انہوں نے مزید کہا کہ جو اس پر بانٹنے کی کوشش کررہے وہ سیاست ہے'۔