ETV Bharat / city

'مولانا برہان الدین سنبھلی کے انتقال سے علمی حلقے کا بڑا خسارہ' - مولانا برہان الدین مرحوم

لکھنؤ کا مشہور ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سینیئر استاد مولانا برہان الدین سنبھلی کا 17 جنوری کی شام ساڑھے چار بجے انتقال ہوگیا۔

The loss of Maulana Burhanuddin Sambhli's great loss to the academy
مولانا برہان الدین سنبھلی کے انتقال سے علمی حلقے کا بڑا خسارہ
author img

By

Published : Jan 18, 2020, 1:01 PM IST

مرحوم مولانا برہان الدین کی پیدائش سنہ 1938 میں ہوئی تھی۔ اس طرح ان کی عمر 82 برس ہوئی۔ آج بعد نماز ظہر ان کی نماز جنازہ اور تدفین کی رسم ادا کی جائے گی۔

وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شعبہ تفسیر وحدیث میں کئی سالوں سے تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔

مولانا برہان الدین سنبھلی کے انتقال سے علمی حلقے کا بڑا خسارہ

اسکے علاوہ مولانا برہان الدین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن، جمیعۃ العلماء، اسلامک فقہ اکیڈمی کے زمہ دار کے طور پر بھی کام کیا۔ ساتھ ہی دوسری ملی تنظیموں کو بھی آپ کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کی کئی کتابیں ہیں جو اسلامی فقہ و قوانین سے متعلق ہیں۔

مولانا برہان الدین مرحوم کے صاحبزادے نعمان ندوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں بتایا کہ 'والد محترم بڑے اصولی انسان تھے، کبھی وقت کو ضائع نہیں کیا، ہمیشہ وقت کی قدر کی۔

انھوں نے بتایا کہ 'ان کی زندگی میں اکل حلال کا بڑا اہتمام تھا، کبھی بھی کوئی مشکوک لقمہ ان کی حلق سے نیچے نہیں اترا'۔

مولانا برہان الدین کے چھوٹے بھائی قمر سنبھلی نے بتایا کہ 'نماز با جماعت کے بڑے پابند تھے۔ بچپن سے ہی نماز کی عادت تھی۔ یہاں تک کہ بیماری کی حالت میں بھی نماز نہیں چھوڑتے تھے۔ ہم سب پر بڑی شفقت تھی ان کی'۔

مولوی مناظر حسن جو ان کے شاگرد اور خدمت گار بھی ہیں، نے نم آنکھوں سے بتایا کہ 'وہ ہمیں وقت کی قدر کرنا سکھاتے تھے، ہمیشہ زور دیتے تھے کہ وقت کی اہمیت کو جانو۔ ساتھ ہی سنت کی پابندی خوب کرتے تھے'۔

انھوں نے بتایا کہ 'وہ مجھے اپنے بیٹے کی طرح مانتے تھے۔ ان کی شفقت مجھ پر ہمیشہ رہی۔ ان کی موت سے علمی حلقے کا بہت بڑا خسارہ ہوا ہے۔ مرحوم نے بیماری کی حالت میں بھی کئی کتابیں لکھیں'۔

مولانا برہان الدین مرحوم کی عملی زندگی پر مختصر نظر

  • آپ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے آخری شاگرد تھے۔
  • سنہ 1957 میں دارالعلوم دیوبند سے سب سے امتیازی نمبرات سے فراغت حاصل کی۔
  • دہلی میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور کچھ سال مدرسہ عالیہ عربیہ مسجد فتحپوری دہلی میں پڑھایا بھی۔
  • سنہ 1970 میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی دعوت پر دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف لائے جہاں تفسیر وحدیث وفقہ اور حجۃ اللہ البالغہ کا درس ان کے ذمہ کیا گیا۔
  • مولانا اویس ندوی کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شیخ التفسیر ہوئے۔
  • مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء کے ناظم بھی مقرر ہوئے۔
  • دارالقضاء اترپردیش کے صدر قاضی بھی تھے۔
  • آل انڈیا اسلامک فقہ اکیڈمی کے نائب صدر، تاسیسی رکن اورطویل عرصہ تک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے۔
  • انہیں حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ابن شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت بھی حاصل تھی۔
  • کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں 'معاشرتی مسائل اور ان کا حل' مشہور کتاب ہے اس کے علاوہ رویت ہلال کے مسئلے پر ان کی تاریخی کتاب شائع ہوچکی ہے۔
  • آپ حافظ قرآن کریم بھی تھے۔
  • انھوں نے کئی ملکوں کے علمی اور دینی سفر بھی کیے، جن میں امریکا کا ایک طویل سفر قابل ذکر ہے۔
  • اپنی تعلیمی خدمات کی بنیاد پر صدر جمہوریہ ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

مرحوم مولانا برہان الدین کی پیدائش سنہ 1938 میں ہوئی تھی۔ اس طرح ان کی عمر 82 برس ہوئی۔ آج بعد نماز ظہر ان کی نماز جنازہ اور تدفین کی رسم ادا کی جائے گی۔

وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شعبہ تفسیر وحدیث میں کئی سالوں سے تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔

مولانا برہان الدین سنبھلی کے انتقال سے علمی حلقے کا بڑا خسارہ

اسکے علاوہ مولانا برہان الدین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن، جمیعۃ العلماء، اسلامک فقہ اکیڈمی کے زمہ دار کے طور پر بھی کام کیا۔ ساتھ ہی دوسری ملی تنظیموں کو بھی آپ کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کی کئی کتابیں ہیں جو اسلامی فقہ و قوانین سے متعلق ہیں۔

مولانا برہان الدین مرحوم کے صاحبزادے نعمان ندوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں بتایا کہ 'والد محترم بڑے اصولی انسان تھے، کبھی وقت کو ضائع نہیں کیا، ہمیشہ وقت کی قدر کی۔

انھوں نے بتایا کہ 'ان کی زندگی میں اکل حلال کا بڑا اہتمام تھا، کبھی بھی کوئی مشکوک لقمہ ان کی حلق سے نیچے نہیں اترا'۔

مولانا برہان الدین کے چھوٹے بھائی قمر سنبھلی نے بتایا کہ 'نماز با جماعت کے بڑے پابند تھے۔ بچپن سے ہی نماز کی عادت تھی۔ یہاں تک کہ بیماری کی حالت میں بھی نماز نہیں چھوڑتے تھے۔ ہم سب پر بڑی شفقت تھی ان کی'۔

مولوی مناظر حسن جو ان کے شاگرد اور خدمت گار بھی ہیں، نے نم آنکھوں سے بتایا کہ 'وہ ہمیں وقت کی قدر کرنا سکھاتے تھے، ہمیشہ زور دیتے تھے کہ وقت کی اہمیت کو جانو۔ ساتھ ہی سنت کی پابندی خوب کرتے تھے'۔

انھوں نے بتایا کہ 'وہ مجھے اپنے بیٹے کی طرح مانتے تھے۔ ان کی شفقت مجھ پر ہمیشہ رہی۔ ان کی موت سے علمی حلقے کا بہت بڑا خسارہ ہوا ہے۔ مرحوم نے بیماری کی حالت میں بھی کئی کتابیں لکھیں'۔

مولانا برہان الدین مرحوم کی عملی زندگی پر مختصر نظر

  • آپ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے آخری شاگرد تھے۔
  • سنہ 1957 میں دارالعلوم دیوبند سے سب سے امتیازی نمبرات سے فراغت حاصل کی۔
  • دہلی میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور کچھ سال مدرسہ عالیہ عربیہ مسجد فتحپوری دہلی میں پڑھایا بھی۔
  • سنہ 1970 میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی دعوت پر دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف لائے جہاں تفسیر وحدیث وفقہ اور حجۃ اللہ البالغہ کا درس ان کے ذمہ کیا گیا۔
  • مولانا اویس ندوی کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شیخ التفسیر ہوئے۔
  • مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء کے ناظم بھی مقرر ہوئے۔
  • دارالقضاء اترپردیش کے صدر قاضی بھی تھے۔
  • آل انڈیا اسلامک فقہ اکیڈمی کے نائب صدر، تاسیسی رکن اورطویل عرصہ تک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے۔
  • انہیں حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ابن شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت بھی حاصل تھی۔
  • کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں 'معاشرتی مسائل اور ان کا حل' مشہور کتاب ہے اس کے علاوہ رویت ہلال کے مسئلے پر ان کی تاریخی کتاب شائع ہوچکی ہے۔
  • آپ حافظ قرآن کریم بھی تھے۔
  • انھوں نے کئی ملکوں کے علمی اور دینی سفر بھی کیے، جن میں امریکا کا ایک طویل سفر قابل ذکر ہے۔
  • اپنی تعلیمی خدمات کی بنیاد پر صدر جمہوریہ ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.