ETV Bharat / city

حسرت موہانی کا نعرہ مظلوموں کا سہارا - inqualab zindabad

انقلاب زندہ آباد کا نعرہ دینے والے حسرت موہانی کی آج ہی کے دن لکھنؤ میں زبان خاموش ہوگئی تھی لیکن ان کا نعرہ آج بھی تحریک کو روح بخشتا ہے۔

hasrat
hasrat
author img

By

Published : May 13, 2020, 12:26 PM IST

Updated : May 13, 2020, 1:16 PM IST

تحریک آزادی سے لے کر آج تک جب بھی کسی تحریک یا مہم کی شروعات ہوتی ہے تو مظلوموں کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔

'انقلاب زندہ باد'

حسرت موہانی کا نعرہ مظلوموں کا سہارا

لیکن اس نعرہ کو دینے والے شخص حسرت موہانی کا اصل نام سبھی لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا ۔

حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن اور تخلص حسرت، اتر پردیش کے ضلع اناؤ کے موہان قصبہ میں 1875 میں پیدا ہوئے تھے۔

ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1903 میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔

شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ 1903ءمیں علی گڑھ سے ایک رسالہ اردوئے معلی جاری کیا۔

حسرت پہلے کانگرسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلا ف تھی۔ چنانچہ 1907میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ اس کے بعد 1947ء تک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ اس دوران ان کا رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

حسرت موہانی کے چند منتخب اشعاردرج ذیل ہیں۔۔۔۔

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ

مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن

آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف

وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

13 مئی1951 کو اتر پریش کے لکھنؤ میں یہ شاعر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا لیکن اس شاعر کا نعرہ آج بھی انقلابیوں کی آواز بنتا ہے۔

تحریک آزادی سے لے کر آج تک جب بھی کسی تحریک یا مہم کی شروعات ہوتی ہے تو مظلوموں کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔

'انقلاب زندہ باد'

حسرت موہانی کا نعرہ مظلوموں کا سہارا

لیکن اس نعرہ کو دینے والے شخص حسرت موہانی کا اصل نام سبھی لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا ۔

حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن اور تخلص حسرت، اتر پردیش کے ضلع اناؤ کے موہان قصبہ میں 1875 میں پیدا ہوئے تھے۔

ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1903 میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔

شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ 1903ءمیں علی گڑھ سے ایک رسالہ اردوئے معلی جاری کیا۔

حسرت پہلے کانگرسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلا ف تھی۔ چنانچہ 1907میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ اس کے بعد 1947ء تک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ اس دوران ان کا رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

حسرت موہانی کے چند منتخب اشعاردرج ذیل ہیں۔۔۔۔

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ

مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن

آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف

وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

13 مئی1951 کو اتر پریش کے لکھنؤ میں یہ شاعر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا لیکن اس شاعر کا نعرہ آج بھی انقلابیوں کی آواز بنتا ہے۔

Last Updated : May 13, 2020, 1:16 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.