ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا شہر میں واقع ملی الامین کالج کے تعلق سے علاقے کے سرکردہ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کالج جس حالات سے دوچار ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے بند ہی کرنا پڑجائے۔
کالج کا اقلیتی کردار کئی برسوں سے التوا کا شکار ہے۔ممتا بنرجی کی حکومت مسلسل ٹال مٹول کر رہی ہے۔کالج کے اساتذہ اور کالج کے بانی کمیٹی کے آپسی جھگڑے اور سیاسی کھیل نے کالج کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
مرکزی کولکاتا میں واقع ملی الامین گرلس کالج مسلم بچیوں کے ضرورت کے پیش نظر قائم کیا گیا تھا۔ یہاں کے مسلمانوں کے عطیات اور کوششوں سے کالج قائم کیا گیا۔کالج کو اقلیتی ادارے کا درجہ دلانے کے لئے کئی برسوں تک تگ و دو جاری رہی۔
اس وقت کی بایاں محاذ کی حکومت جسے مسلمانوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اس کے باوجود کئی برسوں تک اقلیتی درجہ دینے میں ریاستی حکومت بہانے کرتی رہی۔جب کالج کو قومی کمیشن برائے اقلیتی انسٹی ٹیوشن کی جانب سے اقلیتی ادارہ ہونے کا صرف حاصل ہو گیا۔اس کے بعد ریاستی حکومت نے اس پر کوئی اعتراض نہ کرتے ہوئے اقلیتی درجہ کو منظوری دے دی۔
سنہ 2009 سے 2015 تک کالج میں تعلیمی سلسلہ بخوبی جاری رہا۔لیکن 2015 میں کالج کے کچھ اساتذہ اور بانی کمیٹی ملی ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے درمیان جھگڑے کے باعث تین اساتذہ کو معطل کر دیا گیا۔تینوں اساتذہ نے کلکتہ ہائی کورٹ میں اپنی معطلی کے خلاف معاملہ درج کراتے ہوئے کالج کے اقلیتی کرادار کو چلینج کیا۔جس کے بعد کلکتہ ہائی کورٹ نے ممتا بنرجی کی حکومت سے کالج کے اقلیتی کردار پر حلف نامہ دینے کو کہا، ریاستی حکومت کی جانب سے حلف نامہ دیا گیا جس میں کہا گیا کہ کالج کو اقلیتی کردار حاصل نہیں ہے۔
جس کے بعد بانی کمیٹی نے اس کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ میں اپیل دائر کی۔اس درمیان ٹیچرز کی معطلی جاری رہی جس پر ریاستی حکومت نے کالج کی بانی کمیٹی سے کہا کہ وہ عدالت سے معاملہ اٹھا لے، کالج کے اقلیتی کردار بحال کر دیا جائے گا۔
کالج انتظامیہ نے معاملہ واپس لے لیا لیکن آج تک کالج اقلیتی کردار بحال نہیں کیا گیا۔اب حالت یہ ہے کہ کالج میں اس سال داخلہ کا سلسلہ بند ہے۔جب طلباء ہی نہیں ہوں گے تو کالج کا بند ہونا طے ہے۔آخر کالج کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے کولکاتا شہر کے چند سرکردہ مسلمانوں سے بات کی۔ملی الامین کالج بچاؤ کمیٹی کے رکن اور سی پی آئی ایم رہنما ڈاکٹر فواد حلیم نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کالج کی موجودہ صورت حال کی ذمہ دار ریاستی وزیر برائے اقلیتی امور اور وزیر اعلی ممتا بنرجی ہیںکیونکہ ریاستی حکومت نے ملی الامین کالج گرلس کالج جسے پورے بھارت میں لڑکیوں کا واحد اقلیتی ادارہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔موجودہ ریاستی حکومت کی سیاست کی نذر ہوگیا اور اس کے لئے وزیر اعلی ممتا بنرجی ذمہ دار ہیں۔
کولکاتا شہر کے ایک اور سرکردہ شخص نوراللہ جاوید نے کہا کہ ملی الامین کالج کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار کولکاتا کے مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کولکاتا کے مسلمانوں کا رویہ کالج کے تئیں کبھی سنجیدہ نہیں رہا مسلمانوں نے کالج سے ہمیشہ بے اعتنائی برتی دوسری جانب کالج کے انتظامیہ میں جاری سیاست اور مسلمانوں کے ساتھ سوتیلے سلوک نے کالج کے مستقبل کو تاریک تر بنا دیا ہے دوسری جانب کالج کی انتظامیہ کمیٹی کی بھی سست روی نے کالج کی یہ حالت بنائی ہے۔کمیٹی کو پہلے ہی ریاستی حکومت کے خلاف دوبارہ سپریم کورٹ جانا چاہئے تھا۔
مزید پڑھیں:
'مرکزی حکومت جمہوریت کا احترام نہیں کرتی'
کولکاتا شہر کے ایک اور سماجی کارکن منظر جمیل کا اس تعلق سے کہنا تھا کہ جس کالج کا مستقبل روشن تھا جس میں ہزاروں بچیاں تعلیم حاصل کر سکتی تھیں۔لیکن آج وہاں چند بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ موجودہ ریاستی حکومت نے ہمیں وعدے پر بہلا رکھا ہے۔اس میں سب سے بڑی ہماری کمی ہے۔ممتا بنرجی نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔