تعزیتی نششت میں شہر و اطراف کے کئی سرکردہ علماء و مختلف مکتبہ فکر کی نمایاں شخصیات نے شرکت کی اور مولانا اسحاق کو خراج عقیدت پیش کیا۔
پروگرام کا آغاز قاری مزمل حیات کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔
مہمان خصوصی کے طور پر مولانا مفتی علیم الدین قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ زیرو مائل نے شرکت کی۔ اس موقعے پر انہوں نے کہا کہ حضرت مولانا ایک بلند مقام کے عالم دین تھے، انہوں نے اپنی پوری زندگی عوام کے درمیان وعظ و نصیحت سے اسلام کی تبلیغ کی یا یوں کہا جائے کہ دین اسلام کو عملی طور پر پیش کیا، ان کے نزدیک کوئی بڑا چھوٹا نہیں تھا، وہ سبھی سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے، ان کی صلاحیت کا معترف ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ بھی کرتے تھے۔ آپ نے اپنی تقریر کے ذریعہ لوگوں میں اصلاحی خدمات کو انجام دئیے'۔
جامع مسجد کے امام و خطیب مولانا آفتاب عالم مظاہری نے کہا کہ' مولانا سے بارہا ملاقات ہوئی، ان کے دل میں امت کا درد اور زبوں حالی کا تذکرہ سنا، وہ ہمیشہ اسی فکر میں رہے کہ نئی نسل میں دین اسلام کی سچی تصویر کیسے پیش کیا جائے۔'
مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ کے انچارج پرنسپل مولانا شاہد عادل قاسمی نے کہا کہ' یہ اس خطے کی بدقسمتی ہے کہ جو اکابر زندہ ہوتے ہیں ان کی زندگی میں وہ قدردانی نہیں کرتے مگر جب وفات پاتے ہیں تب ان کی کمی کا احساس ہوتا ہے'۔
مدرسہ رجوکھر کے مہتمم مفتی انعام الباری قاسمی نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث شیخ ثانی کے نام سے مشہور مولانا عبد الحق سے کوئی بھی طالب علم کہتا میں ارریہ سے آیا ہوں تو وہ لازم پوچھتے مولانا اسحاق کے ضلع سے ہو۔ مولانا کی صلاحیت و صالحیت کا یہ مرتبہ تھا'۔
تعزیتی پروگرام میں صحافی عبدالغنی، شاعر عبد الباری زخمی حافظ یاسین وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر آس فاؤنڈیشن کے چیئرمین ماسٹر اکرم نے کہا کہ' یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں تعزیتی پروگرام کرنے کا موقع ملا، انشاءاللہ آنے والے دنوں میں مولانا کی خدمات پر ایک سمینار کا اہتمام کیا جائے گا۔ پروگرام کا اختتام مفتی علیم الدین قاسمی کی دعا پر ہوئی۔