جموں شہر میں گزشتہ کئی روز سے سورج جیسے آگ اگل رہا ہے جس کے سبب دن کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت معمول سے زیادہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
30 جون کو جموں میں رواں موسم کا گرم ترین دن تھا۔ بدھ کے روز جموں میں دن کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 42.9 ڈگری سلسیس ریکارڈ کیا گیا ، جو معمول کے درجہ حرارت سے 5.2 ڈگری سیلسیس زیادہ ہے۔
شدید گرمی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں ہی رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں اس کے علاوہ جو لوگ گھروں سے نکلتے ہیں، وہ گرمی کی شدت اور اس کے مضر اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جموں کے بازاروں میں تازہ پھلوں کا رس ، آئس کریم اور دیگر ٹھندی مشروبات کی دکانوں پر لوگوں کا جم غفیر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
جموں کے ایک مقامی باشندے روبن چودھری نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں درجہ حرارت میں غیر متوقع اضافہ ہوا ہے ، جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی مشکلات پیش آرہی ہیں ،جبکہ بجلی کی آنکھ مچولی سے عوام کے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرمی کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے وہ شکنجی اور دیگر تازہ پھلوں کے رس کا استعمال کرتے ہیں۔ جموں کی ایک دکان پر تازہ پھلوں کے رس کا مزہ لیتے ہوئے ایک اور عام شہری مندیپ نے کہا کہ وہ گرمی کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے کافی مقدار میں تازہ پھلوں کے رس کا استعمال کرتے ہیں ۔
پانی یا شکنجی کا کاروبار کرنے والے اور آئس کریم کی تجارت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ہی ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جہاں ایک طرف لوگ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پریشان ہیں تو وہیں بجلی کی لگاتار آنکھ مچولی نے ان کی تکالیف مزید بڑھا دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
کرن نامی ایک مقامی باشندے کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیس تک پہنچ چکا ہے اور ایسے میں بجلی کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ تاہم بجلی کی مسلسل کٹوتی سے عام لوگ خاص طور پر بزرگ اور بچے پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہی ۔
انہوں نے حکام سے اپیل کی کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے پیش نظر بجلی کی کٹوتی میں کمی کی جائے۔ وہیں بجلی حکام نے اعتراف کیا کہ جموں کے کئی علاقوں میں اکثر اوقات بجلی سپلائی بند کرنی پڑتی ہے ، کیونکہ بجلی کی پیداوار اور مانگ میں کافی تفاوت ہے۔
ادھر محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ جموں میں آئندہ ایک ہفتے تک بارش کا کوئی امکان نہیں ہے۔