انہوں نے کہا کہ نماز لفظ نہ تو قرآن میں ہے نہ عربی لفظ ہے نہ ہی پرشین میں ہے۔
یہ جلسہ تنظیم ابحاث منڈل کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا نماز لفظ خلیص ایشیاء کے ہندوستان کی زبانوں میں سے ایک قدیم زباں سنسکرت سے لیا گیا ہے۔ شاید اسی لیے ایشیاء میں جہاں جہاں بھی نماز لفظ کا استعمال ہوتا ہے اس کا مطلب وہ اکھنڈ بھارت کا ہی حصہ رہا ہوگا۔
اسلامک اسکالر نے کہا ہمارے ملک میں مشترکہ تہذیب کے لوگ رہتے ہیں جن کا الگ مذہب، الگ ذاتی اور زبان ہے۔ اس کے باوجود روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے تعلقات بناتے ہیں اور ہنسی خوشی سے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اپنے فائدے کے لیے غلط فہمیوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں سے دوریاں بنا لیتے ہیں جس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں۔
اگر علم کی روشنی آپ کے پاس ہے تو ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی بجائے غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے کیونکہ جو وید، قرآن اور بائبل کے جانکار ہیں وہ یہ جانتے ہیں مالک تو ایک ہے اور اول آخر میں اس کی ہی جستجو رہتی ہے۔
سید عبدالطارق نے کہا ہم نے الگ الگ راستے اختیار کر رکھے ہیں مگر منزل تو ایک ہے۔ اگر غلط فہمیوں کو دور کیا جائے تو یہ ملک ایک بار پھر سے دنیا کی تاریخ میں اپنا نام روشن کر سکتا ہے۔ مذہب کی جتنی بھی کتابیں ہیں وہ چاہے ہندوؤں کی ہوں یا مسلمانوں کی یہ کبھی نہیں کہتی کہ وہ کسی ایک کے عقیدت ماننے والوں کے لئے ہے، بلکہ وہ تو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہیں۔
طارق نے کہا کہ ملک تقسیم نہ تو ہندوؤں نے کروایا تھا نا ہی مسلمانوں نے بلکہ ملک تقسیم کروایا تھا نفرتوں نے۔ اگر یہ نفرتوں کی دیوار گر جائے گی غلط فہمی اگر دور ہوجائے گی پھر سے ملک کے بیچ کھڑی ہوئی دیوار بھی نہیں رہے گی اور ایک بار پھر سے ہندوستان اکھنڈ ہو جائے گا۔