انہوں نے کہا کہ بھگت سنگھ کی شخصیت میں وہ مقناطیسیت تھی جس کی طرف نوجوان کھنچے چلے آتے ہیں۔ وہ آج بھی ہمارے آئیڈیل رہنما ہیں اور نوجوانوں کے ہیرو۔ ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان بھی ان کا نام بے حد احترام سے لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بھگت سنگھ نے ملک کی آزادی کے بعد ایک ایسے سماج کا تصور کیا تھا جس میں کوئی بھید بھاﺅ، کوئی تفریق نہیں ہوگی، ذات پات کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اور تمام سرکاری سہولیات سے ہر شہری کو مساوی طور پر فیض یاب ہونے کا موقع ملے گا۔
انیس اعظمی نے بھگت سنگھ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ جیل میں انھوں نے جو ڈائری لکھی اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سیاست، معیشت اور سماجیات کا گہرا دراک رکھتے تھے اور ان کے ذہن میں ملک کی ترقی کا ایک واضح لائحہ عمل تھا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی آزادی کے لیے بھگت سنگھ کی قربانیوں اور ان کے افکار و خیالات سے نوجوان نسل کو واقف کرایا جائے ۔
جلسے کے آغاز میں بھگت سنگھ کے آخری خط کی آڈیو ریکارڈنگ بھی ویژول ڈاکیونٹری کی شکل میں پیش کی گئی جس سے سامعین بے حد متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر معراج احمد، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ صحافت و ترسیل عامہ نے
اس موقع پر بھگت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک عظیم انقلابی تھے جنھوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر نوجوانوں کو ملک کی آزاد کرانے کی ترغیب دی۔جلسے میں مختلف شعبہ جات کے طلبہ و طالبات نے بھی اظہار ِ خیال کیا۔
مرکز مطالعات اردو ثقافت کے میوزیم کیوریٹر حبیب احمد نے جلسے کا انتظام و انصرام کیا۔ڈاکٹر فیروز عالم، اسسٹنٹ پروفیسر، مرکز مطالعات اردو ثقافت نے جلسے کی نظامت کی اور آخر میں اظہار تشکر کیا۔