ETV Bharat / city

'ہم شرانگیزی اور منفی رپورٹنگ کے خلاف ہیں'

چیف جسٹس ایس اے بوبڑے نے آج جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر سماعت کے دوران سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے اور یہ کہ مرکز کی طرف سے جو حلف نامہ عدالت میں داخل کیا گیا ہے وہ نامکمل ہے اور حیلہ سازی وڈھٹائی پر مبنی ہے“۔

مولانا سید ارشدمدنی
مولانا سید ارشدمدنی
author img

By

Published : Oct 8, 2020, 8:08 PM IST

Updated : Oct 8, 2020, 8:15 PM IST

جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق کوروناوائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں ومسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدر جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے۔

اس پٹیشن پر آج چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے اس بات کیلئے بھی مرکز کو زبردست لتاڑ لگائی کہ اس نے اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ اسے خراب یا منفی رپورٹنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا، چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے سوال کیا کہ آپ یہ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا۔

عدالت نے یونین آف انڈیا کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ حکومت کی جانب سے جونیئر افسران کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ میں یہ کیسے لکھ دیاگیا کہ عرضی گذار(جمعیۃ علماء ہند) نے بغیر کسی واقعہ اور حوالہ کے یعنی فیک نیوز کی تفصیلات دیئے بغیر پٹیشن داخل کردی۔

عدالت نے تشار مہتا سے کہاکہ عرضی گذار نے پٹیشن میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے چلائے جانے والی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز خبروں سے متعلق تمام شواہد و ثبوت درج کئے ہیں۔

چیف جسٹس نے تشار مہتا سے کہاکہ آپ عدالت سے اس طرح سے نہ پیش آئیں جس طرح آپ اپنے ماتحت افسران سے پیش آتے ہیں اور حلف نامہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ حقائق پر مبنی داخل کریں جس پر تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت پر سینئر افسر کے ذریعہ تیار کردہ تازہ حلف نامہ داخل کریں گے جو ان کی زیر نگرانی تیار کیا جائے گا۔

عدالت نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے یہ بھی کہا کہ حلف نامہ میں یہ خصوصی طور پر تحریر کریں کہ ماضی میں ایسی شکایتوں پر مرکزی حکومت نے کن قوانین کے تحت کیا کارروائی کی ہے نیز کیا حکومت کو ٹیلی ویژن پر پابندی لگانے کا اختیار ہے؟

چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کو حکم دیا کہ دو ہفتوں کے اندر وزارت نشریات واطلاعات کے سیکریٹری کی جانب سے حلف نامہ داخل کرکے یہ بتائیں کہ ایسے نیوز چینلوں کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا حالیہ دنوں میں بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے۔

آج قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے آج کی سماعت کے دوران جو باتیں کہی ہیں اور جن کی انہوں نے وضاحت چاہی ہے اس سے ہمارے موقف کی مکمل تائید ہوگئی انہوں نے کہا کہ عدالت کے استفسار پر مرکزی حکومت کی طرف سے حیلہ سازی پر مبنی ایک نامکمل حلف نامہ کا داخل کیا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے اور وہ متعصب میڈیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔

انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی میں ثبوت وشواہد کے ساتھ جو کچھ کہا ہے سالیسٹر جنرل اس کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنا چاہ رہے ہیں اور مرکز کی طرف سے داخل کئے گئے حلف نامہ میں بھی کچھ ایسا ہی تاثر دینے کی دانستہ کوشش ہوئی ہے کہ عرضی گزارنے اس طرح کی عرضی داخل کرکے اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی بات کہی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ عرضی میں اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگانے جیسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جو نیوز چینل ایک مخصوص قوم کو منصوبہ بند طریقہ سے اپنی شرانگیز اور یکطرفہ رپورٹنگ کے ذریعہ نشانہ بناکر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہو ادینے کی دن رات سازشیں کرتے ہیں ان پر پابندی لگنی چاہئے اور ان کے لئے کوئی حتمی گائیڈلائن مقررکی جانی چاہئے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس حوالہ سے جمعیۃعلماء ہند کو جو کچھ کہنا چاہئے تھا چیف جسٹس نے اپنے تبصرے میں کہہ دیا ہے۔ انہوں نے ایک طرح سے یہ کہہ کر کہ حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے متعصب میڈیا کے کردار پر سے نقاب الٹ دی ہے۔

مولانا مدنی نے آگے کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہار کی مکمل آزادی دی ہے ہم کلی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اگر اظہار رائے کی اس آزادی سے دانستہ کسی کی دل آزاری کی جاتی ہے کسی فرقہ یا قوم کی کردارکشی کی کوشش ہوتی ہے یا اس کے ذریعہ استعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے تو ہم اس کے سخت خلاف ہیں، آئین میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی میڈیا راہ راست پر آنے کو تیار نہیں ہے البتہ آج چیف جسٹس نے جس طرح کے سخت تبصرے کئے ہیں اس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس معاملہ میں جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ آئے گا اور فرقہ پرست ذہنیت اور متعصب میڈیا کے منہ میں لگام پڑجائے گی۔

جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق کوروناوائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں ومسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدر جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے۔

اس پٹیشن پر آج چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے اس بات کیلئے بھی مرکز کو زبردست لتاڑ لگائی کہ اس نے اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ اسے خراب یا منفی رپورٹنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا، چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے سوال کیا کہ آپ یہ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا۔

عدالت نے یونین آف انڈیا کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ حکومت کی جانب سے جونیئر افسران کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ میں یہ کیسے لکھ دیاگیا کہ عرضی گذار(جمعیۃ علماء ہند) نے بغیر کسی واقعہ اور حوالہ کے یعنی فیک نیوز کی تفصیلات دیئے بغیر پٹیشن داخل کردی۔

عدالت نے تشار مہتا سے کہاکہ عرضی گذار نے پٹیشن میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے چلائے جانے والی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز خبروں سے متعلق تمام شواہد و ثبوت درج کئے ہیں۔

چیف جسٹس نے تشار مہتا سے کہاکہ آپ عدالت سے اس طرح سے نہ پیش آئیں جس طرح آپ اپنے ماتحت افسران سے پیش آتے ہیں اور حلف نامہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ حقائق پر مبنی داخل کریں جس پر تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت پر سینئر افسر کے ذریعہ تیار کردہ تازہ حلف نامہ داخل کریں گے جو ان کی زیر نگرانی تیار کیا جائے گا۔

عدالت نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے یہ بھی کہا کہ حلف نامہ میں یہ خصوصی طور پر تحریر کریں کہ ماضی میں ایسی شکایتوں پر مرکزی حکومت نے کن قوانین کے تحت کیا کارروائی کی ہے نیز کیا حکومت کو ٹیلی ویژن پر پابندی لگانے کا اختیار ہے؟

چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کو حکم دیا کہ دو ہفتوں کے اندر وزارت نشریات واطلاعات کے سیکریٹری کی جانب سے حلف نامہ داخل کرکے یہ بتائیں کہ ایسے نیوز چینلوں کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا حالیہ دنوں میں بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے۔

آج قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے آج کی سماعت کے دوران جو باتیں کہی ہیں اور جن کی انہوں نے وضاحت چاہی ہے اس سے ہمارے موقف کی مکمل تائید ہوگئی انہوں نے کہا کہ عدالت کے استفسار پر مرکزی حکومت کی طرف سے حیلہ سازی پر مبنی ایک نامکمل حلف نامہ کا داخل کیا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے اور وہ متعصب میڈیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔

انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی میں ثبوت وشواہد کے ساتھ جو کچھ کہا ہے سالیسٹر جنرل اس کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنا چاہ رہے ہیں اور مرکز کی طرف سے داخل کئے گئے حلف نامہ میں بھی کچھ ایسا ہی تاثر دینے کی دانستہ کوشش ہوئی ہے کہ عرضی گزارنے اس طرح کی عرضی داخل کرکے اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی بات کہی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ عرضی میں اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگانے جیسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جو نیوز چینل ایک مخصوص قوم کو منصوبہ بند طریقہ سے اپنی شرانگیز اور یکطرفہ رپورٹنگ کے ذریعہ نشانہ بناکر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہو ادینے کی دن رات سازشیں کرتے ہیں ان پر پابندی لگنی چاہئے اور ان کے لئے کوئی حتمی گائیڈلائن مقررکی جانی چاہئے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس حوالہ سے جمعیۃعلماء ہند کو جو کچھ کہنا چاہئے تھا چیف جسٹس نے اپنے تبصرے میں کہہ دیا ہے۔ انہوں نے ایک طرح سے یہ کہہ کر کہ حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے متعصب میڈیا کے کردار پر سے نقاب الٹ دی ہے۔

مولانا مدنی نے آگے کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہار کی مکمل آزادی دی ہے ہم کلی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اگر اظہار رائے کی اس آزادی سے دانستہ کسی کی دل آزاری کی جاتی ہے کسی فرقہ یا قوم کی کردارکشی کی کوشش ہوتی ہے یا اس کے ذریعہ استعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے تو ہم اس کے سخت خلاف ہیں، آئین میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی میڈیا راہ راست پر آنے کو تیار نہیں ہے البتہ آج چیف جسٹس نے جس طرح کے سخت تبصرے کئے ہیں اس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس معاملہ میں جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ آئے گا اور فرقہ پرست ذہنیت اور متعصب میڈیا کے منہ میں لگام پڑجائے گی۔

Last Updated : Oct 8, 2020, 8:15 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.