پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے شاہی عیدگاہ کو ہٹانے کی عرضی کو متھرا ضلعی عدالت کے ذریعہ منظور کیے جانے کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔
بابری مسجد معاملے میں کامیابی پاتے ہی، انہوں نے عدالت میں ایک عرضی دائر کر متھرا عیدگاہ پر حملہ بولا تھا، لیکن نچلی عدالت میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔
نچلی عدالت کا فیصلہ انصاف اور ملک کے قانون کے مطابق تھا۔ عبادتگاہ (خصوصی دفعات) قانون، 1991 کی دفعہ 4 میں 1947 سے پہلے سے موجود کسی بھی عبادتگاہ کو تبدیل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس کے مذہبی کردار کو بعینہ برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق بابری مسجد معاملے میں سریم کورٹ کے فیصلے کو دوسرے دعووں اور 1947 کے بعد کے مقدموں کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ لہٰذا متھرا ضلعی عدالت کا عرضی کو قبول کرنے کا فیصلہ غلط اور غیر منصفانہ ہے۔
اس فیصلے کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور آنے والے مزید کئی سالوں کے لیے مذہبی برادریوں کے درمیان پُرامن بقاء بھی متاثر ہوگی۔ یہی چیز بابری مسجد معاملے میں ہوئی تھی۔ بابری کی تاریخ دوبارہ نہیں دہرائی جانی چاہئے۔
ایک طرف اس فیصلے سے فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور وہ کسی بھی اقلیتی عبادتگاہ پر ایسے ہی دعوے کریں گے۔ دوسری جانب اس سے عدلیہ کی آزادی پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔
او ایم اے سلام نے ملک کے پرامن مستقبل کا خواب دیکھنے والے تمام بھارتیہ شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متھرا درخواست گذاروں کے دعوے اور عیدگاہ مسجد معاملے میں ضلعی عدالت کے رخ کی مخالفت کریں۔