گذشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک میسج تیزی سے وائرل ہو رہا ہے، وائرل میسج میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ بہار کے ضلع گوپال گنج کی ایک مسجد میں ایک ہندو لڑکے کی قربانی دی گئی۔ مقتول کا نام روہت جیسوال ہے، جس کی عمر 15 سال تھی۔
وائرل ہو رہے اس میسج میں روہت کے والدین کے ساتھ ساتھ اس کی بہن کی تصویر بھی وائرل ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی روہت کے والد راجیش جیسوال کا ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہو رہا ہے، جس میں مسلمانوں کے خوف کی وجہ سے وہ پورے خاندان کے ساتھ گاؤں چھوڑ کر جانے کی بات کہہ رہے ہیں۔ ویڈیو کلپ میں راجیش یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان کے بیٹے کا قتل کیا گیا ہے۔
راجیش ویڈیو میں مزید کہتے ہیں کہ جب میں تھانے پر تفتیش کی جانکاری لینے پہنچا تو پولیس نے مجھے ہی پیٹنا شروع کر دیا۔ مجھے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ جبکہ مقامی لوگوں کا کچھ اور ہی کہنا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں مسجد میں قربانی دینے والی بات با لکل غلط ہے اور انہیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ ڈیڑھ ماہ بعد یہ مسجد والی بات کیسے نکلی؟ لوگوں نے مزید کہا کہ یہاں ہر مذہب کے لوگ ملت کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ راجیش اور اس کے اہل خانہ کا گھر چھوڑ کر جانے والی بات بھی غلط ہے کیوں کہ یہاں 85 فیصد ہندو اور 15 فیصد ہی مسلمان رہتے ہیں۔ ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں رہنے والے تقریباً تمام ہی لوگوں نے ان سے گھر چھوڑ کر نہ جانے بات کہی اور انہیں کھانے پینے کا ضروری سامان بھی مہیا کروایا۔
مسجد میں قربانی کی افواہ کے بعد ہلاک شدہ کے اہل خانہ نے پولیس والوں پر ملزموں کو بچانے کے الزامات عائد کیے۔ الزام لگانے کے بعد راجیش خاندان کے ساتھ اتر پردیش کے دیوریا اپنے رشتہ داروں کے گھر چلے گئے۔
اسی گاؤں کے ویبھوتی نارائن رائے نے کہا کہ یہ قتل ہے یا خود کشی یہ جانچ کا موضوع ہے لیکن اس کا کسی مسجد یا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہاں تمام لوگ امن و امان سے رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ حادثہ 28 مارچ 2020 کا ہے اور مقامی پولیس کے علاوہ اعلی افسران نے بھی مسجد میں قربانی والی بات سے انکار کیا ہے۔
- کب کا ہے معاملہ؟
معاملہ ضلع گوپال گنج کے کٹیا تھانہ علاقے کے بیلہی ڈیہہ گاؤں کا ہے۔ 28 مارچ کو روہت غائب ہوا اور 29 مارچ کو اس کی لاش کھنواں ندی سے برآمد ہوئی۔ مقتول کے والد پکہا ندی کے نزدیک ہی پکوڑی کی دکان چلاتے تھے۔
- چھ پر ایف آئی آر درج
اس معاملے میں راجیش جیسوال کے بیان پر روہت کے چھ دوستوں پر نامزد ایف آئی آر درج کیا گیا ہے، جس میں ایک کا نام پریانشو کشواہا ہے جبکہ دیگر 5 ملزم دوسرے مذہب کے تھے۔ پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے 5 لڑکوں کو گرفتار کرلیا۔ گرفتار ہوئے پانچوں لڑکے نابالغ ہیں۔ انہیں کورٹ سے ضمانت مل چکی ہے۔ اس معاملے میں شامل ایک ملزم ابھی فرار ہے۔
- پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کوئی زخم نہیں
روہت کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں اس کے جسم پر کسی بھی طرح کا زخم نہیں ملا ہے۔ لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر اشوک کمار اکیلا نے بتایا کہ مقتول کے پیٹ اور پھیپھڑے میں پانی ملا تھا لیکن کسی طرح کی مارپیٹ یا گلا دبانے کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔ آنکھ اور ناک پر خون کے نشان ملے تھے لیکن ڈوبنے سے بچنے کی کوشش میں آنکھ اور ناک پر دباؤ پڑتا ہے۔
- ڈی آئی جی سارن نے کیا کہا
سارن رینج کے ڈی آئی جی وجے کمار ورما نے بتایا کہ تفتیش ابھی جا رہی ہے۔ مسجد میں قربانی دینے والی بات با لکل بےبنیاد ہے اور میں نے خود اس کی تحقیقات کی ہے۔ اس معاملے کو غلط طریقے سے نشر کرنے کے الزام میں کٹیا تھانہ میں دو میڈیا گروپز پر ایف آئی آر بھی درج کیا گیا ہے۔
- ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے خود تحقیقات کی
اپنے الگ انداز کے لیے مشہور بہار کے ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے اس حادثے کی تفتیش اپنے طریقے سے کی۔ وہ گاؤں پہنچ کر لوگوں سے مل کر ان سے بات تو کی ہی ساتھ ہی روہت جس ندی میں ڈوب کر مرا تھا اس میں خود ہی کود گئے۔ انہوں نے تمام ملزمین کے ساتھ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر سے بھی بات کی۔
- ملزمان کے اہل خانہ کا کیا کہنا ہے
اس قتل کے معاملے پر جن بچوں پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ قتل کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 28 مارچ کو پانچ بچے ندی میں نہانے گئے جس میں سے ایک ڈوب گیا۔ خوف کی وجہ سے باقی بچے بھاگ کر گھر آ گئے اور بنا کسی سے کچھ بھی بتائے سو گئے۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔