ETV Bharat / city

ہم نے صرف وہی وعدہ کیا جو ہم کر سکتے ہیں

ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہوڈا نے امت اگنی ہوتری کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ 'وہ کبھی افراد پر نہیں بلکہ پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں'۔

Former Haryana Chief Minister Bhupinder Singh Hooda
author img

By

Published : Oct 14, 2019, 11:47 AM IST

Updated : Oct 16, 2019, 12:26 PM IST

یہ الیکشن آپ کے لیے کافی زیادہ اہمیت کا حامل ہے، آپ کو کتنا اعتماد ہے کہ کانگریس ہریانہ میں دوبارہ اقتدار میں آئے گی؟

ہر انتخاب اہم ہوتا ہے، میں ریاست کا دورہ کر رہا ہوں اور گزشتہ مہینوں میں کسانوں، دلتوں اور تاجروں کے ساتھ پروگرامز کا اہتمام کیا ہے، وہ سب اس مرتبہ کانگریس کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اگرچہ ہماری تنظیم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے لیکن کارکنان پرجوش ہیں، ہم ہریانہ میں حکومت بنائیں گے۔

لیکن 2019 لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے ہریانہ کی تمام 10 پارلیمانی نشستوں کو کھو دیا تھا۔ آپ 21 اکتوبر کو ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس کی وضاحت کیسے کریں گے؟

لوک سبھا انتخابات کوئی الگ تھلگ پول نہیں تھا، پورا شمالی ہندوستان ایک رجحان سے متأثر تھا لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ریاستی انتخابات قومی انتخابات سے مختلف ہوتے ہیں اور اسمبلی انتخابات میں ریاستی حکومت کی کارکردگی اور مقامی امور زیادہ اہم ہوتے ہیں، پارلیمنٹ کے مسائل بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔

ہریانہ میں کانگریس برسوں سے آپسی تنازعات کا شکاررہی ہے۔ ریاستی یونٹ کے سابق صدر اشوک تنور نے حال ہی میں ناقص ٹکٹوں کی تقسیم کا الزام عائد کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے کیا نئی ٹیم متحد ہے؟

جی ہاں، ہمارے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں، جو لوگ استعفیٰ دے چکے ہیں وہ اب یہاں نہیں ہیں تو ان کے بارے میں بات کیوں کی جائے۔ ہم سب متحد ہیں جن میں نئی ریاستی یونٹ کی سربراہ کماری سیلجا بھی شامل ہیں۔

کیا آپ ہریانہ میں کانگریس کے ممکنہ وزیراعلیٰ امیدوار ہیں؟

جب میں 2005 میں وزیراعلیٰ بنا تھا تو اس وقت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ وزیراعلیٰ کون بنے گا۔ ایک قومی پارٹی صرف اس صورت میں چہرے کا اعلان کرتی ہے جب وہاں کوئی وزیراعلیٰ موجود ہو۔ منتخب پارٹی کے رکن اسمبلی اور ہائی کمان فیصلہ کریں گے کہ وزیراعلیٰ کون ہوگا۔ تاہم اگر مجھے ذمہ داری دی جائے گی تو میں اپنی جانب سے سب سے اچھی کوشش کروں گا۔

وہ کون سے تین اہم منصوبے ہیں جن پر آپ لوگوں سے کانگریس کے لیے ووٹ مانگ سکتے ہیں؟

دوہزار چودہ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 154 وعدے کیے تھے لیکن کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کیا۔ رائےدہندگان اب کھٹر حکومت کی ناکامی اور ماضی کی کانگریس حکومت کی کامیابیوں کا موازنہ کر رہے ہیں۔ ہمارے دور میں کسان خوش تھے۔ اس حکومت نے غریبوں کے لیے کچھ نہیں کیا جبکہ ہم نے انہیں پلاٹ دیئے۔ پیداوار کی لاگت بڑھ چکی ہے جبکہ منافع میں کمی آئی ہے اور کسانوں کو ایم ایس پی نہیں دیا جارہا ہے۔ انہوں نے پنجاب سے ہریانہ کے حکومتی اسٹاف کی تنخواہوں کی پیمائش کا وعدہ کیا تھا لیکن ایچ آر اے کے لیے ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے کے لیے 6000 کروڑ روپے مختص کرنا باقی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں امن وامان کی صورتحال کافی خراب ہوگئی ہے۔ ہریانہ میں روزانہ تین قتل اور پانچ عصمت دری کے علاوہ ڈاکیتی کے متعدد واقعات رونما ہوتے ہیں۔

آپ کے خیال میں بی جے پی کے ترقیاتی ایجنڈے کے وعدے کا کیا ہوا؟

ریاست فی کس سرمایہ کاری میں پہلے نمبر پر تھی لیکن اب بے روزگاری میں پہلے نمبر پر ہے۔ بی جے پی صرف پروگرام منظم کرنے میں بہتر ہے۔ ریاستی حکومت نے این آر آئی کے لیے گروگرام میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا اور مجھے بتایا گیا کہ ان کا کرایہ اور ہوٹل کے بل انتظامیہ نے ادا کیے تھے۔ سربراہی اجلاس کے دوران 6 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس کا چار فیصد بھی نہیں آیا۔ ہمارے دور میں بے روزگاری کی شرح جو 2.8 فیصد تھی اس میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

مالی معاملات کے سلسلے میں آپ کی پارٹی نے خواتین کے لیے 33 فیصد ملازمت کے ریزرویشن، بے روزگاری الاؤنس اور رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی کے لیے غریب طلباء کو وظائف جیسے وعدے کئے ہیں لیکن کانگریس کے اقتدار میں آنے کی صورت میں آپ ان وعدوں کو کس طرح پورا کریں گے؟

ہم نے صرف وہی وعدہ کیا ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی ہم اسی طرح کے کام کرچکے ہیں۔

کیا یہ اسمبلی انتخاب بھوپیندر سنگھ ہوڈا بمقابلہ منوہر لال کھٹر ہے یا آپ بھی بی جے پی کی مرکزی قیادت سے لڑ رہے ہیں؟

میں کبھی بھی انفرادی طور سے تنقید نہیں کرتا ہوں، میں نے صرف کھٹر حکومت کی پالیسیوں پر ہی سوال اٹھائے ہیں، ریاست میں سب سے اہم مسئلہ روزگارکا ہے اور اس کے لیے ہمیں ریاست میں سرمایہ کاری اور صنعتکاری لانا ہوگی۔ امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے پر ہی سرمایہ کاری ممکن ہے۔ ذراعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کسانوں کی حالت بد سے بدتر ہوگئی ہے یہی نکات ہماری ترجیحات میں ہوںگے۔

جموں وکشمیر میں پارٹی لائن کے خلاف جاکر آپ نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی حمایت کرکے حال ہی میں کانگریس کے رہنماؤں کو حیرت میں ڈال دیا! اس پرآپ کی رائے کیا ہے؟

میری ریاست سے مسلح افواج میں بہت سارے فوجی موجود ہیں تو میں نے ان کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہا تھا۔ مزید یہ کہ میری جماعت بہت جمہوری ہے اور اب یہ معاملہ زیادہ متعلقہ نہیں رہ جاتا جبکہ پارلیمنٹ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔

آپ کو مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے انسداد بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا یہ مہم بدنیتی پر مبنی ہے؟

یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے میں اس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ مجھے عدلیہ پر مکمل یقین ہے کہ حقیقت سامنے آئے گی۔ میرے دورحکومت میں کچھ بھی غلط نہیں ہوا تھا۔

یہ الیکشن آپ کے لیے کافی زیادہ اہمیت کا حامل ہے، آپ کو کتنا اعتماد ہے کہ کانگریس ہریانہ میں دوبارہ اقتدار میں آئے گی؟

ہر انتخاب اہم ہوتا ہے، میں ریاست کا دورہ کر رہا ہوں اور گزشتہ مہینوں میں کسانوں، دلتوں اور تاجروں کے ساتھ پروگرامز کا اہتمام کیا ہے، وہ سب اس مرتبہ کانگریس کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اگرچہ ہماری تنظیم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے لیکن کارکنان پرجوش ہیں، ہم ہریانہ میں حکومت بنائیں گے۔

لیکن 2019 لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے ہریانہ کی تمام 10 پارلیمانی نشستوں کو کھو دیا تھا۔ آپ 21 اکتوبر کو ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس کی وضاحت کیسے کریں گے؟

لوک سبھا انتخابات کوئی الگ تھلگ پول نہیں تھا، پورا شمالی ہندوستان ایک رجحان سے متأثر تھا لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ریاستی انتخابات قومی انتخابات سے مختلف ہوتے ہیں اور اسمبلی انتخابات میں ریاستی حکومت کی کارکردگی اور مقامی امور زیادہ اہم ہوتے ہیں، پارلیمنٹ کے مسائل بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔

ہریانہ میں کانگریس برسوں سے آپسی تنازعات کا شکاررہی ہے۔ ریاستی یونٹ کے سابق صدر اشوک تنور نے حال ہی میں ناقص ٹکٹوں کی تقسیم کا الزام عائد کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے کیا نئی ٹیم متحد ہے؟

جی ہاں، ہمارے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں، جو لوگ استعفیٰ دے چکے ہیں وہ اب یہاں نہیں ہیں تو ان کے بارے میں بات کیوں کی جائے۔ ہم سب متحد ہیں جن میں نئی ریاستی یونٹ کی سربراہ کماری سیلجا بھی شامل ہیں۔

کیا آپ ہریانہ میں کانگریس کے ممکنہ وزیراعلیٰ امیدوار ہیں؟

جب میں 2005 میں وزیراعلیٰ بنا تھا تو اس وقت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ وزیراعلیٰ کون بنے گا۔ ایک قومی پارٹی صرف اس صورت میں چہرے کا اعلان کرتی ہے جب وہاں کوئی وزیراعلیٰ موجود ہو۔ منتخب پارٹی کے رکن اسمبلی اور ہائی کمان فیصلہ کریں گے کہ وزیراعلیٰ کون ہوگا۔ تاہم اگر مجھے ذمہ داری دی جائے گی تو میں اپنی جانب سے سب سے اچھی کوشش کروں گا۔

وہ کون سے تین اہم منصوبے ہیں جن پر آپ لوگوں سے کانگریس کے لیے ووٹ مانگ سکتے ہیں؟

دوہزار چودہ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 154 وعدے کیے تھے لیکن کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کیا۔ رائےدہندگان اب کھٹر حکومت کی ناکامی اور ماضی کی کانگریس حکومت کی کامیابیوں کا موازنہ کر رہے ہیں۔ ہمارے دور میں کسان خوش تھے۔ اس حکومت نے غریبوں کے لیے کچھ نہیں کیا جبکہ ہم نے انہیں پلاٹ دیئے۔ پیداوار کی لاگت بڑھ چکی ہے جبکہ منافع میں کمی آئی ہے اور کسانوں کو ایم ایس پی نہیں دیا جارہا ہے۔ انہوں نے پنجاب سے ہریانہ کے حکومتی اسٹاف کی تنخواہوں کی پیمائش کا وعدہ کیا تھا لیکن ایچ آر اے کے لیے ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے کے لیے 6000 کروڑ روپے مختص کرنا باقی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں امن وامان کی صورتحال کافی خراب ہوگئی ہے۔ ہریانہ میں روزانہ تین قتل اور پانچ عصمت دری کے علاوہ ڈاکیتی کے متعدد واقعات رونما ہوتے ہیں۔

آپ کے خیال میں بی جے پی کے ترقیاتی ایجنڈے کے وعدے کا کیا ہوا؟

ریاست فی کس سرمایہ کاری میں پہلے نمبر پر تھی لیکن اب بے روزگاری میں پہلے نمبر پر ہے۔ بی جے پی صرف پروگرام منظم کرنے میں بہتر ہے۔ ریاستی حکومت نے این آر آئی کے لیے گروگرام میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا اور مجھے بتایا گیا کہ ان کا کرایہ اور ہوٹل کے بل انتظامیہ نے ادا کیے تھے۔ سربراہی اجلاس کے دوران 6 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس کا چار فیصد بھی نہیں آیا۔ ہمارے دور میں بے روزگاری کی شرح جو 2.8 فیصد تھی اس میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

مالی معاملات کے سلسلے میں آپ کی پارٹی نے خواتین کے لیے 33 فیصد ملازمت کے ریزرویشن، بے روزگاری الاؤنس اور رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی کے لیے غریب طلباء کو وظائف جیسے وعدے کئے ہیں لیکن کانگریس کے اقتدار میں آنے کی صورت میں آپ ان وعدوں کو کس طرح پورا کریں گے؟

ہم نے صرف وہی وعدہ کیا ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی ہم اسی طرح کے کام کرچکے ہیں۔

کیا یہ اسمبلی انتخاب بھوپیندر سنگھ ہوڈا بمقابلہ منوہر لال کھٹر ہے یا آپ بھی بی جے پی کی مرکزی قیادت سے لڑ رہے ہیں؟

میں کبھی بھی انفرادی طور سے تنقید نہیں کرتا ہوں، میں نے صرف کھٹر حکومت کی پالیسیوں پر ہی سوال اٹھائے ہیں، ریاست میں سب سے اہم مسئلہ روزگارکا ہے اور اس کے لیے ہمیں ریاست میں سرمایہ کاری اور صنعتکاری لانا ہوگی۔ امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے پر ہی سرمایہ کاری ممکن ہے۔ ذراعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کسانوں کی حالت بد سے بدتر ہوگئی ہے یہی نکات ہماری ترجیحات میں ہوںگے۔

جموں وکشمیر میں پارٹی لائن کے خلاف جاکر آپ نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی حمایت کرکے حال ہی میں کانگریس کے رہنماؤں کو حیرت میں ڈال دیا! اس پرآپ کی رائے کیا ہے؟

میری ریاست سے مسلح افواج میں بہت سارے فوجی موجود ہیں تو میں نے ان کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہا تھا۔ مزید یہ کہ میری جماعت بہت جمہوری ہے اور اب یہ معاملہ زیادہ متعلقہ نہیں رہ جاتا جبکہ پارلیمنٹ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔

آپ کو مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے انسداد بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا یہ مہم بدنیتی پر مبنی ہے؟

یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے میں اس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ مجھے عدلیہ پر مکمل یقین ہے کہ حقیقت سامنے آئے گی۔ میرے دورحکومت میں کچھ بھی غلط نہیں ہوا تھا۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Oct 16, 2019, 12:26 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.