ETV Bharat / city

مدھیہ پردیش: لو جہاد معاملے میں نوجوان کی گرفتاری پر گراؤنڈ رپورٹ - etv bharat urdu

مدھیہ پردیش کے بھروانی ضلع میں لو جہاد کا پہلا معاملہ درج کیا گیا ہے۔

Madhya Pradesh
Madhya Pradesh
author img

By

Published : Jan 20, 2021, 8:18 AM IST

صوبے کے بھرروانی ضلع میں ’’لو جہاد‘‘ کا پہلا معاملہ اُس وقت درج کیا گیا جب ایک 22 سالہ خاتون نے اقلیتی طبقے کے نوجوان کے خلاف شکایت درج کرائی۔

مدھیہ پردیش: لو جہاد معاملے میں نوجوان گرفتار

خاتون نے نوجوان پر الزام لگایا ہے کہ ملزم نے شادی کا وعدہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ پچھلے چار سال سے جسمانی تعلقات قائم کر رہا تھا۔

ذرائع کے مطابق ملزم نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی تھی اور اس کے چار سال سے شکایت کنندہ خاتون کے ساتھ تعلقات تھے۔ اس دوران وہ شادی کرنے کا وعدہ کر خاتون کا جسمانی استحصال کرتا تھا۔

تھانہ انچارج راجیش یادو نے بتایا کہ جب متاثرہ خاتون کو ملزم کے مذہب کا پتہ چلا تو اس نے رشتہ ختم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس شخص نے خاتون کے ساتھ تعلقات کو عام کرنے کی دھمکی دی۔

مدھیہ پردیش آزادی مذہب آرڈیننس (2020) کے تحت عصمت دری اور مجرمانہ دھمکی دینے کے الزام میں پولیس نے معاملہ درج کیا ہے اور ملزم کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ 25 سالہ نوجوان پہلے سے شادی شدہ ہے جس پر 22 سالہ لڑکی کو اپنی شناخت چھپا کر جسمانی رشتہ قائم کرنے کا الزام ہے۔ معاملے کے متعلق پولیس نے جانچ شروع کر دی ہے۔

مذہبی تبدیلی کے متعلق یہ آرڈیننس مدھیہ پردیش میں ابھی حال ہی میں نافذ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت 10 سال تک کی قید اور 50 ہزار تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔

گذشتہ ماہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اعلان کیا تھا کہ ”اگر کوئی سازش کے تحت مذہب کی تبدیلی کرتا ہے یا لو جہاد جیسا کوئی کام کرتا ہے تو اسے برباد کر دیا جائے گا”۔

اس سے قبل اتر پردیش نے بھی اکتوبر میں اس قسم کا آرڈیننس منظور کیا تھا جس کے تحت کئی گرفتاریاں بھی ہو چکی ہیں۔ لو جہاد کے متعلق دائیں بازو کا الزام ہے کہ مسلمان مرد، ہندو خواتین کو سازش کے تحت مذہب تبدیل کرا رہے ہیں لیکن یہ نظریہ عام طور پر ہندو مردوں اور مسلمان خواتین کے مابین تعلقات کو نظرانداز کرتا ہے۔

واضح ہو کہ لو جہاد کی اصطلاح کو مرکزی حکومت نے تنسلیم نہیں کیا ہے۔ گزشتہ سال فروری میں وزارت داخلہ نے ایک سوال کے جواب میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ "قانون میں اس کی تعریف نہیں کی گئی ہے"۔ اس کے باوجود متعدد ریاستوں نے جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قوانین منظور کرلیے ہیں یا ان کے متعلق بیانات دئے ہیں۔ ان ریاستوں میں آسام بھی شامل ہے، جہاں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور بی جے پی ووٹوں کو پولرائز کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

اتر پردیش میں نومبر میں نافذ ہونے والے لو جہاد آرڈیننس کے تحت بہت ساری گرفتاریاں ہوئی ہیں جس میں زیادہ معاملوں میں مسلمان مرد کو گرفتار کیا گیا ہے جن پر ہندو خواتین کو مذہب تبدیل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

صوبے کے بھرروانی ضلع میں ’’لو جہاد‘‘ کا پہلا معاملہ اُس وقت درج کیا گیا جب ایک 22 سالہ خاتون نے اقلیتی طبقے کے نوجوان کے خلاف شکایت درج کرائی۔

مدھیہ پردیش: لو جہاد معاملے میں نوجوان گرفتار

خاتون نے نوجوان پر الزام لگایا ہے کہ ملزم نے شادی کا وعدہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ پچھلے چار سال سے جسمانی تعلقات قائم کر رہا تھا۔

ذرائع کے مطابق ملزم نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی تھی اور اس کے چار سال سے شکایت کنندہ خاتون کے ساتھ تعلقات تھے۔ اس دوران وہ شادی کرنے کا وعدہ کر خاتون کا جسمانی استحصال کرتا تھا۔

تھانہ انچارج راجیش یادو نے بتایا کہ جب متاثرہ خاتون کو ملزم کے مذہب کا پتہ چلا تو اس نے رشتہ ختم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس شخص نے خاتون کے ساتھ تعلقات کو عام کرنے کی دھمکی دی۔

مدھیہ پردیش آزادی مذہب آرڈیننس (2020) کے تحت عصمت دری اور مجرمانہ دھمکی دینے کے الزام میں پولیس نے معاملہ درج کیا ہے اور ملزم کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ 25 سالہ نوجوان پہلے سے شادی شدہ ہے جس پر 22 سالہ لڑکی کو اپنی شناخت چھپا کر جسمانی رشتہ قائم کرنے کا الزام ہے۔ معاملے کے متعلق پولیس نے جانچ شروع کر دی ہے۔

مذہبی تبدیلی کے متعلق یہ آرڈیننس مدھیہ پردیش میں ابھی حال ہی میں نافذ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت 10 سال تک کی قید اور 50 ہزار تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔

گذشتہ ماہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اعلان کیا تھا کہ ”اگر کوئی سازش کے تحت مذہب کی تبدیلی کرتا ہے یا لو جہاد جیسا کوئی کام کرتا ہے تو اسے برباد کر دیا جائے گا”۔

اس سے قبل اتر پردیش نے بھی اکتوبر میں اس قسم کا آرڈیننس منظور کیا تھا جس کے تحت کئی گرفتاریاں بھی ہو چکی ہیں۔ لو جہاد کے متعلق دائیں بازو کا الزام ہے کہ مسلمان مرد، ہندو خواتین کو سازش کے تحت مذہب تبدیل کرا رہے ہیں لیکن یہ نظریہ عام طور پر ہندو مردوں اور مسلمان خواتین کے مابین تعلقات کو نظرانداز کرتا ہے۔

واضح ہو کہ لو جہاد کی اصطلاح کو مرکزی حکومت نے تنسلیم نہیں کیا ہے۔ گزشتہ سال فروری میں وزارت داخلہ نے ایک سوال کے جواب میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ "قانون میں اس کی تعریف نہیں کی گئی ہے"۔ اس کے باوجود متعدد ریاستوں نے جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قوانین منظور کرلیے ہیں یا ان کے متعلق بیانات دئے ہیں۔ ان ریاستوں میں آسام بھی شامل ہے، جہاں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور بی جے پی ووٹوں کو پولرائز کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

اتر پردیش میں نومبر میں نافذ ہونے والے لو جہاد آرڈیننس کے تحت بہت ساری گرفتاریاں ہوئی ہیں جس میں زیادہ معاملوں میں مسلمان مرد کو گرفتار کیا گیا ہے جن پر ہندو خواتین کو مذہب تبدیل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.