ریاست بہار کے بھاگلپور ضلع کے گمنام مصنف اسلام احمد شاہی، ایک ہزار سے زیادہ غزلیں اور ایک درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔
ان کی تصنیفات میں شان مخدوم اشرف، نعمات روحانی۔ حضرت مخدوم شہباز بھاگلپوری، ترانہ رمضان، تاریخ خاندان شہبازی، مختصر حالات مخدوم اشرف جہانگیر، حضرت مولانا شہباز محمد، تذکرہ اسلاف شہبازی قابل ذکر ہیں۔
انہوں نے بھاگلپور اور آس پاس کے اولیاء کرام اور بزرگان دین کی تاریخ جو اب تقریبا ناموس ہونے کے دہانے پر ہیں، اپنی تصنیفات سے انہوں نے زندہ جاوید بنانے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔
بھاگلپور اور قرب و جوار کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے اور انہوں نے بڑی تحقیق اور حوالے کے ساتھ اپنی تصنیفات کو قابل قدربنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد کتابیں شائع ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن مالی حالت اس قابل نہیں ہے کہ کتابوں کے چھپنے کا خرچ برداشت کرسکیں۔
اسلام شاہی کو شکایت ہے کہ اردو اکادمی یا اردو کو فروغ دینے والے اس طرح کے ادارے بھی انہیں کی مدد کرتے ہیں جن کے تعلقات ہوتے ہیں۔ مالی دشواریوں اور ادبی حلقوں میں نظرانداز کیے جانے کے باوجود پڑھنے لکھنے کا شوق اور اپنی وراثت کو کتابی شکل میں یکجا کرنے کا جذبہ واقعی قابل قدر ہے۔
اسلام احمد شاہی بتاتے ہیں کہ انگریزی دور حکومت میں ان کے آباؤ و اجداد جاگیردار ہوا کرتے تھے لیکن وقت نے کروٹ لی اور اب حالات اس قدر ہوگئے ہیں کہ اپنی تصنیفات شائع کرانے کیلئے دوسروں کے محتاج ہیں اور ان کی چھپی کتابوں سے پبلشرز تو اچھی خاصی کمائی کر لیتے ہیں لیکن خود مصنف اسلام احمد شاہی کو چند کتابوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملتا، فی الحال وہ بھاگلپور سے 20 کلو میٹر دور انگلش چنچور نامی ایک جگہ میں گمنامی کی زندگی گزارتے ہوئےعلم کی شمع روشن کر رہے ہیں۔