عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں ترون باروٹ سمیت چار دیگر ملزموں کی جانب سے دائر کی گئی ڈسچارج عرضی پر عشرت جہاں کی والدہ شمیمہ کوثر نے سی بی آئی کورٹ کو ایک خط لکھا ہےجس میں کہا کہ ہے کہ ان کی بیٹی عشرت جہاں بے قصور تھی اور انہیں ایک شازش کے تحت مارا گیا ہے۔
اس معاملے کے وکیل شمشاد خان پٹھان نے بتایا کہ درخواست گزار عشرت جہاں کی والدہ شمیمہ کوثر نے ملزمین کی ڈسچارج عرضی کے خلاف سی بی آئی کو خط لکھا ہےجس میں کہا گیا ہےکہ عشرت جہاں کو پچھلے 15 سالوں میں انصاف نہیں ملا۔
2004 میں ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرنے کے باوجود چھ سالوں تک اس معاملے میں کچھ نہیں کیا گیا اور دوہزار دس میں سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ، ہائی کورٹ نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر انکاؤنٹر کو حقیقی قرار دیے دیا۔
عشرت جہاں کی والدہ شمیمہ کوثر نے خط میں لکھا ہے کہ ان کی بیٹی عشرت جہاں کے مسلم ہونے کی وجہ سے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیےکچھ لوگ جس میں اعلی پولس افسران بھی شامل ہیں انھوں نے عشرت جہاں کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ان کی 19 سالہ بیٹی کالج میں تعلیم حاصل کر رہی تھی دہشت گردی کے ساتھ اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔حتی کہ اس مقدمے میں ابھی تک کوئی چارج شیٹ بھی داخل نہیں کی گئی ہے۔
شمیمہ کوثر عشرت جہاں کی انصاف کی لڑئی لڑتے تھک چکی ہیں وہ گجرات حکومت کے روئیے سے بھی پریشان ہیں۔کیونکہ متنازعہ فرضی انکاوٹر ہونے کے باوجود اس میں ملوث ایک کے بعد ایک ملزم رہا ہورہے ہیں۔
واضح رہے کہ سال 2004 میں گجرات کے اُس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں عشرت جہاں اور ذیشان سمیت تین افراد کو احمد آباد کے کوترپور کے قریب ہلاک کیا گیا تھا۔