ان حالات میں لاک ڈاؤن کے سبب گھریلو جھگڑوں، گھریلو تشدد میں تیزی سے اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ بات کریں احمدآباد کی تو یہاں لاک ڈاؤن کے دوران بڑی تعداد میں خواتین کو سسرال والوں کے مبینہ مظالم، مار پیٹ اور گھریلو تنازعہ کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے سبب لاک ڈاؤن میں کئی گھر ٹوٹتے بکھرتے بھی نظر آئے۔ ایسے میں احمدآباد میں گھریلو مظالم کا شکار ہونے والی ایک خاتون نے اپنا درد ای ٹی وی بھارت سے بیان کیا۔
گھریلو جھگڑے سے پریشان افسانہ کا کہنا ہے کہ 'اس کی شادی کو پانچ سال ہو گئے لیکن اب اسے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ شوہر اور ساس کے جھگڑے اور طعنوں نے ہماری زندگی اجیرن کردی ہے'۔ اسے میکے میں لاکر چھوڑ دیا گیا ہے لاک ڈاؤن کے دوران اس کے شوہر نے گھر خرچ کے لیےکبھی کبھی دن کے 30 روپے دیا کرتے تھے۔ اتنے میں کیسے گزارا ہو سکتا ہے؟ وہ اب اپنے شوہر سے طلاق لے کر نئی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔
عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن نسیم کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں پہلے کے مقابلے زیادہ گھریلو تشدد کے معاملے سامنے آئے ہیں۔ ہمارے پاس اس دوران ہر روز فون آتے تھے کہ گھر چلانا مشکل ہوگیا، کاروبار بند ہے، جیب میں پیسے نہیں ہیں، جس کی وجہ سے روزانہ گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ شوہر اپنا غصہ بیوی پر اتارتا ہے۔ کچھ عورتیں تو خود کشی تک کرنا چاہتی تھی لیکن انہیں سمجھایا اور حالات سے واقف کرایا تو کچھ حد تک رشتے ٹوٹنے سے بچے۔
یہ بھی پڑھیں:
سارہ علی خان کے گھر کورونا کی دستک
سماجی کارکن نور جہاں دیوان کا کہنا ہے لاک ڈاؤن ہر انسان کے لیے مشکل وقت تھا لیکن سب سے زیادہ اس دوران عورتوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ویسے تو ہمیشہ سے عورتیں سسرال میں مار پیٹ اور ظلم و ستم کا شکار ہوتی رہی ہیں لیکن کورونا کی وجہ سے نافذ کردہ اس لاک ڈاؤن میں گھریلو ظلم و ستم کے معاملے 5 گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
ہر روز نئے نئے کیسز ہمارے پاس آتے تھے اور ہم ان کا مسئلہ حل کرتے ہیں لیکن اس لاک ڈاؤن نے عام آدمی کو پوری طرح برباد کردیا ہے۔
دلت خواتین پر ہوئے ظلم و ستم پر سماجی کارکن سمترا کا کہنا ہے کہ زیادہ تر دلت برادری کے افراد روز کما کر روزی کھانے والے ہوتے ہیں۔ ان کی مزدوری لاک ڈاؤن میں چھوٹ گئی اور اس بات کا غصہ وہ اپنی بیویوں پر اتار رہے ہیں۔