ETV Bharat / business

بھارتی اقتصادیات پر قوتِ نوجواں کے اثرات

تیز ترین ترقی کررہی معیشیت کے بطور بھارت پوری دنیا کے 19فیصد نوجوانوں کا گھر ہے۔ دراصل بھارت کا سب سے بڑا اثاثۃ اسکا یہی نوجوان طبقہ ہے اور یہ آبادی کا سب سے با صلاحیت حصہ ہے۔

بھارتی اقتصادیات پر قوتِ نوجواناں کے اثرات
بھارتی اقتصادیات پر قوتِ نوجواناں کے اثرات
author img

By

Published : Jan 22, 2020, 5:05 PM IST

Updated : Feb 18, 2020, 12:14 AM IST

نوجوان اپنی جدت طرازی،تخلیق کاری،تعمیری اور قائدانہ صلاحیتوں کے طفیل اپنی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔لیکن وہ اپنی قوموں کی تقدیر تب ہی بدل سکتے ہیں کہ جب انہیں صحیح تعلیم ،بہتر ہنر اور اچھی صحت ملے۔

اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ(یو این ایف پی اے)کے مطابق پورے عالم میں ابھی 10 سے 24 سال تک کی عمر کے1.8بلین نوجوان ہیں اور اس حوالے سے بھارت کا سب سے زیادہ حصہ 356ملین ہے۔اس فہرست میں چین 269ملین نوجوانوں کے ساتھ دوسرے،67ملین کے ساتھ انڈونیشیاء تیسرے ،65ملین کے ساتھ امریکہ چوتھے ،59ملین کے ساتھ پاکستان پانچویں،57ملین کے ساتھ نائجیریا چھٹے،51ملین کے ساتھ برازیل ساتویں اور48ملین کے ساتھ بنگلہ دیش آٹھویں نمبر پر ہے۔

بھارت میں ابھی 25 سال کی عمر کےتقریبا 600 ملین نوجوان ہیں، جو ملک کی کل آبادی کانصف سے زیادہ ہے اور یہ نوجوان ہماری دنیا کو ایک بہتر طریقے سے تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تیز ترین ترقی کررہی معیشیت کے بطور بھارت پوری دنیا کے 19فیصدنوجوانوں کا گھر ہے۔دراصل بھارت کا سب سے بڑا اثاثۃ اسکا یہی نوجوان طبقہ ہے اور یہ آبادی کا سب سے با صلاحیت حصہ ہے۔
پھر اس نوجوان آبادی کے طفیل سے بھارت کو ایک منفرد آبادیاتی فائدہ حاصل ہے، لیکن اگر اس انسانی وسائل کی جانب مناسب توجہ مرکوز نہیں کی گئی تو ملک کو اس منفرد حیثیت کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکے گا۔
چناچہ بھارت اقتصادی،آبادیاتی ،تکنیکی اور سماجی تبدیلیوں کے تیز دور سے گزر رہا ہے ،اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیئے کہ ترقی میں سماج کے تمام طبقوں کا حصہ شامل ہو اور اس سے مجموعی طور پر پورا سماج مستفید ہو۔
تاہم اس مقصد کے حصول کیلئے یہ بات لازمی ہے کہ ملک کا نوجوان ملک کی اقتصادی ترقی میں مفید کردار ادا کرے۔لیکن بد قسمتی سے جنوبی کوریا کے 96فیصد کے مقابلے میں بھارت کی افرادی قوت کا محض 2.3فیصد حصہ ہی دورانِ حصولِ تعلیم یا فراغت کے بعد رسمی یا باضابطہ تربیت لے چکا ہے ۔جبکہ بھارت کے گریجویٹوں میں سے فقط20فیصد ہی فوری طور پر کمپنیوں کی جانب سے ملازمت میں لیے جانے کے لائق ہوتے ہیں۔گریجویٹس کا80فیصدکام کے شعبہ کیلئے نا قابلِ قبول ہے۔

سال 2019میں عالمی سطح پر جی ڈی پی رینکنگ میں بھارت چھٹے پائیدان پر رہا۔حالانکہ دنیا کی کل نوجوان آبادی کا اسکے پاس 19فیصد ہے لیکن عالمی جی ڈی پی میں ملک فقط 3 فیصد حصہ ہی درج کرا پائی ہے۔دوسری جانب امریکہ جو دنیا کی کل نوجوان آبادی کا فقط 3 فیصد رکھنے کے باوجود بھی عالمی جی ڈی پی کا 25 فیصہ حصہ پیدا کرسکا ہے جس نتیجے میں وہ اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
چین اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے اور(دنیا کی) نوجوان آبادی کا15فیصد رکھنے والے اس ملک سے عالمی جی ڈی پی کا 16فیصد حصہ پیدا ہوسکا ہے۔ان اعدادوشمار سے صاٖف اشارہ ملتا ہے کہ ملک کی قوتِ نوجوان اور عالمی جی ڈی پی میں ملک کی حصہ داری میں کتنا بڑا خلیج ہے۔
موجودہ صورتحال
او ای سی ڈی کی سال 2014میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق فی الوقت بھارت کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہنر مندوں کی 64فیصد کمی کا ہے جبکہ چین میں یہ کمی محض 24فیصد ہے۔جہاں بھارت اس فہرست میں دوسرا ملک ہے وہیں چین اس فہرست میں آخرالذکر ممالک میں سے ہے۔

ہنر مندوں کی شدید کمی کے مسئلہ سے دو چار ممالک
ہنر مندوں کی شدید کمی کے مسئلہ سے دو چار ممالک

لنکڈ اِن کی رپورٹ کے مطابق 'سال 2020 میں بھارت میں ابھرنے والی ملازمتیں' بازار میں پیدا ہونے والی نئی ملازمتوں کو اجاگر کریں گی۔
اس رپورٹ کے مطابق بازار میں، بلاک چین ڈیولوپرس،آرٹیفیشل انٹیلی جنس اسپیشلسٹس،جاوا اسکرپٹ ڈیولوپرس،رابوٹک پروسیس آٹومیشن کنسلٹنٹ،بیک اینڈ ڈیولوپر،گروتھ منیجر،سائٹ ریلی ایبلٹی انجینئر،کسٹمر سکسیس اسپیشلسٹ،رابوٹکس انجینئر،سائبر سکیورٹی اسپیشلسٹ،پائی تھان ڈیولوپر،ڈیجیٹل مارکٹنگ اسپیشلسٹ اور فرنٹ انڈ انجینئرس جیسی ملازمتیں تیزی کے ساتھ پیدا ہورہی ہیں۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ابھی ہائیپر لیجر،سولیڈٹی،نوٹ جے ایس،اسمارٹ کانٹیکٹ،مشین لرننگ،ڈیپ لرننگ،ٹینسرفلو،پائی تھان پرفارمنگ لینگویج اورنیچرل لینگویج پروسیسنگ(این ایل پی)جیسے ہنر رکھنے والوں کی تلاش کی جارہی ہے۔

سال 2019 میں انفوسس کیٹیلنٹ راڈار رپورٹ میں یوزر ایکسپیرئنس(67فیصد)،انالیٹکس(67فیصد)،آٹومیشن(61فیصد)،آئی ٹی آرکیٹکچربشمولِ کلاوڈ(59فیصد)اور آرٹیفشل انٹیلی جنس(58فیصد)پانچ ایسے ہنروں کو بطور اجاگر کرنا چاہیے، جن کی متعلقہ بازار میں بڑی زبردست مانگ ہے۔
یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ یہ ہنر ملک کی کسی بھی یونیورسٹی یا انجینئرنگ انسٹیچیوٹ میں نہیں سکھائے جاتے ہیں، بلکہ ان اداروں میں تکنیک پڑھانے والے اساتذہ نے تو ان ہنروں کے بارے میں سنا بھی نہیں ہے۔
یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا بھرکے مقابلہ جاتی ملازمت بازار کیلئے اہل نہیں بن پا رہے ہیں۔کلاس روم،ہنر اور آج کی صنعتی دنیا کی ضروریات کے مابین خلیج بڑھتی ہی چلی جارہی ہے جسے تب تک کم یا ختم کرنا ممکن نہیں ہے جب تک ہمارے اداروں میں طلباء کی تربیت کیلئے مناسب اساتذۃ اور دیگر ضروری وسائل دستیاب نہ ہوں۔
صنعتی دنیا میں کاروبار کی ڈیجیٹالائزیشن ایک ایسی چیز ہے جسکے لئے درکار ہنرمندوں کی تلاش کیلئے کمپنیاں جدوجہد کرتی ہیں۔
ورلڈ اکانومک فورم کی پیشن گوئی ہے کہ سال 2025تک خودکاری اور مصنوعی عقلمندی یعنی آرٹیفیشل انٹلیجنس کی وجہ سے 75ملین ملازمتیں ختم ہوجائیں گی، تاہم اس دوران 133ملین نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
اس بات کے پیشِ نظر ملک کو آگے لے جانے کے لیے نئے مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوانوں کو بازار کی نئی ضروریات کے مطابق ہنر سکھانا لازمی ہے۔
اہم ڈھانچہ-کام کا منصوبہ
بھارت کا تعلیمی نظام کئی نوجوان گریجویٹوں کو روزگار مہیا کرانے میں ناکام رہا ہے کیونکہ ان کے پاس تعلیم کے علاوہ ایسا کوئی ہنر نہیں ہوتا ہےکہ وہ جس کے بل پر مقابلہ جاتی بازار میں اتر سکیں، جس کا انہیں کالج کے باہر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صلاحیتوں کا اندازہ لگانے والی ایک بھارتی فرم 'ایسپائرنگ مائنڈس ' کی ایک تحقیق کے مطابق موجودہ علمی معیشت میں 80فیصد بھارتی انجینئر نالائقِ روزگار ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری آف انڈیا کی گذشتہ سال کی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ ہندوستان کے بزنس اسکولوں سے نکنے والے گریجویٹوں کا فقط 7فیصد ہی لائقِ روزگار ہے
سال 2018 میں نوجوانوں کے روزگار پانے کی تخمینہ جاتی شرح 10.42 فیصد تھی بلکہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس شرح کو 10 عدد کے ارد گرد گھومتے ہی دیکھا گیا ہے۔
تاہم صحیح سمت میں بعض اچھے اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں جیسے کہ 'انٹرپرینئرشپ' کو بڑھاوا دینے کیلئے حکومتِ ہند نے 'اسٹارٹ اپ انڈیا' 'اسکل انڈیا مشن' کی شروعات، 'اسکل ڈیولوپمنٹ اینڈ انٹرپرینئرشپ' کیلئے مختص وزارت کا قیام،صنعتی قیادت والے اسکل کونسلز کا قیام اور انڈسٹرئل ٹریننگ انسٹیچیوٹ(آئی ٹی آئی)کے نظام میں بھاری بدلاؤ کیے ہیں۔
وزیرِ خزانہ نرملا سیتھارمن کی جانب سے پیش کردہ مرکزی بجٹ2019-20میں تعلیمی شعبہ کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا اور وزیرِ خزانہ نے بھارت کے اعلیٰ تعلیمی نظام میں تبدیلی کے مقصد سے نئی قومی تعلیمی پالیسی لانے کا اعلان کیا ۔

نوجوانوں کے روزگار کے محاذ پر سرکار طلباء کو متعلقہ ہنر سکھانے پر توجہ مرکوز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ طلباء (تعلیمی اداروں سے)روزگار پانے کے لائق ہوکر نکلیں۔
طلاب کو 'آرٹیفشل انٹیلی جنس'، 'روبوٹکس'،' لینگویج ٹریننگ'،' انٹرنیٹ آف تھنگس'(آئی او ٹی)،' تھری ڈی پرنٹنگ'، ' ورچیول ریئلٹی' اور 'بِگ ڈیٹا'کے جیسے ہنروں کی تربیت دینے کیلئے نئے تربیتی پروگرام متعارف کرائے جائیں گے۔
زمانے کی یہ ہنر مندی بھارت کے نوجوانوں کو درونِ ملک یا بیرونِ ملک روزگار کے مواقع پانے کے اہل بنائے گی۔چونکہ بھارتی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع پانے میں مشکلات درپیش ہیں، لہٰذا انہیں مزید رہنمائی اور کیرئر کونسلنگ کی ضرورت ہے۔
چناچہ 51 فیصد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انکی ہنر مندی کے مطابق موجود روزگار کے مواقع کی جانکاری نہ ہونا ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ جبکہ30 فیصد کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کی رہنمائی یا کیرئر کونسلنگ تک رسائی نہ ہونا انکے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے ۔
ٹین ایج (13سے19سال تک کی عمر)کے نوجوانوں میں ڈپریشن کے حوالے سے بھارت پوری دنیا میں سب سے آگے ہے۔یہاں تک کے ملک میں ہر چار ٹین ایج میں سے ایک فرد ڈپریشن کا شکار ہے۔
انڈیا ٹوڈے کنکلیوممبئی2019کے مطابق گذشتہ پانچ سال میں فی گھنٹہ ایک کی رفتار سے بھارت میں زائد از 40 ہزار طلاب نے خودکشی کی جس سے ٹین ایج ڈپریشن کی تشخیص اور اسکا علاج مزید پیچیدہ بن گیا ہے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ ہر پانچ میں سے ایک بالغ شخصبلند فشارِ خون(ہائی بلڈ پریشر)کے مسئلہ سے دوچار ہے۔
چونکہ صحت کی یہ پریشانیاں ملک کی اصل طاقت یعنی قوتِ نوجوان کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لہٰذا انکی طرف فوری توجہ کی جانی چاہیئے۔

اسکا مطلب یہ ہے کہ اچھی تعلیم اور ہنر مندی کے ساتھ ساتھ سرکار کو صحت کے مسائل کو بھی بڑی سنجیدگی سے لینا چاہیئے کیونکہ تندرست نوجوان ہی کسی ملک کی اصل طاقت ہیں۔
ملک کے نوجوانوں کے مختلف زمروں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک مشترکہ حکمتِ عملی کارگر نہیں ہوسکتی ہے لہٰذا نوجوانوں کو با اختیار بنانے کیلئے ہمیں دیہی طلاب اور پورے ملک کی طالبات کے تعلیمی،ہنر مندی اور صحت کے مسائل کو دیکھنے کیلئے الگ الگ حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔
علاوہ ازیں ہمیں ملک میں نوجوانوں کے سب گروپس ،جیسے ملینئلز اور جنریشن زیڈ پر غور کرنا چاہیئے۔
موجودہ زمانے میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں ٹیکنالوجی کا بڑا اہم کردار ہے یہاں تک کہ ابھی کی دنیا انٹرنیٹ اور موبائل کمیونکیشن پر منحصر ہے۔ہروقت اور ہر جگہ انٹرنیٹ کی رسائی نوجوانوں کی ترقی کی کنجی ہے۔
چونکہ موجودہ نوجوان یا جنریشن زیڈ ٹیکنالوجی کے استعمال میں اچھے ہیں اور کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،آئی پیڈس اور اسمارٹ فون وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں،اس لیے اہم ہے کہ ٹیکنالوجی کو تعلیم اور اور ہنر مندی کی تربیت کے نظام میں گویا ضم کیا جائے۔
حکومت کو اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے ڈھانچہ جیسے انٹرنیٹ سرورس،ڈیٹا سنٹرس،کمپیوٹنگ فیسیلٹیز،اوپٹکل فائبر کیبل نیٹورک،انٹرنیٹ بیڈ وڈتھ بڑھانے اور سٹیلائٹ کمیونکیشن وغیرہ،میں بھاری پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہیئے۔
انڈین انسٹیچیوٹ آف ٹیکنالوجی(آئی آئی ٹی)،انڈین انسٹیچیوٹ آف منیجمنٹ(آئی آئی ایم)اور نیشنل انسٹیچیوٹ آف ٹیکنالوجی(این آئی ٹی) کے سبھی کیمپسزکے طلاب کے لیے پورے ملک میں پرابلم سالونگ اسٹیرنگ کمیٹیز تشکیل کرنی چاہیے جس سے سماج اور ملک میں درپیش بعض اہم مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ایک نہایت ہی اچھی بات ہوسکتی ہے۔

چناچہ ایسا نظام بن جائے تو پورے ملک سے مسائل اور مشکلات کو جمع کرکے ان کمیٹیوں کے سامنے رکھا جاسکتا ہے جو ان پر سوچ و فکر کرکے ان کے مناسب طریقے کا جائزہ لیکر ان کا موثر طریقے سے حل کرسکے۔
یہاں تک کہ ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے جو مسائل کو حل کرنے میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے طالب علم کو تعلیمی کریڈٹ یعنی اچھے نمبرات سے نوازا جائے۔اس خیال کو یونیورسٹیز اورکالجوں یہاں تک کہ اسکولوں تک میں متعارف کرایا جاسکتا ہے تاکہ طالب علم چھوٹی عمر سے ہی مسائل اور انکے حل پر سوچنے کے عادی ہوجائیں اور پھر ایک خود کار طریقہ سے ملکی ترقی میں شامل ہوجائیں۔
دنیا میں کام کی جگہوں پر مشینوں کی موجودگی اور ان کا استعمال بڑی تیزی کے ساتھ ہورہا ہے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سال 2015 تک کام پر رہے 4.9کھرب چھوٹے بڑے روبوٹوں کی تعداد سال 2020 تک 25کھرب سے زیادہ ہوگئی ہے۔
لہٰذا نوجوانوں کو مستقبل میں ان مشینوں کے ساتھ کام کرنے کے چلینج کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرنا چاہیئے۔
یہ سب کرنے کیلئے پرائمری اور سکینڈری سطح کے اسکولوں میں 'سمال روبوٹکس ورکشاپ' متعارف کرائے جاسکتے ہیں اور ساتھ ہی ہمیں ملک کے نوجوانوں میں 'لائف لانگ لرننگ اسٹریٹجی' یعنی عمر بھر تک سیکھتے رہنے کا رجحان پیدا کرنا چاہیئے۔اس سے نوجوانوں کو اپنے آپ کو صنعتی بدلاؤ کے کسی بھی دور میں تازہ دم رکھنے اور لائقِ کار بنائے رکھنے میں مدد ملے گی۔
پرائمری تعلیم کے دوران بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں والدین اور اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہے۔چونکہ پرائمری سطح پر اکیلے اساتذۃ ہی بچوں کی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں لہٰذا اس سطح پر دونوں،والدین اور اساتذہ،کو مشترکہ طور اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
بلکہ ابتدائی سطح پر اساتذہ سے زیادہ خود والدین کا کردار اہم ہے جبکہ سکینڈری اور اعلیٰ تعلیم کے دوران طلاب میں پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے حوالے سے والدین کے مقابلے میں اساتذہ کا کردار اہم ہوجاتا ہے ۔تاہم پرائمری سے لیکر ہر سطح کی تعلیم و تربیت کے دوران اساتذہ کی ٹیم میں ماہرینِ نفسیات اور اسٹوڈنٹ کونسلرس کو شامل کیا جانا چاہیئے۔

نوجوان اپنی جدت طرازی،تخلیق کاری،تعمیری اور قائدانہ صلاحیتوں کے طفیل اپنی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔لیکن وہ اپنی قوموں کی تقدیر تب ہی بدل سکتے ہیں کہ جب انہیں صحیح تعلیم ،بہتر ہنر اور اچھی صحت ملے۔

اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ(یو این ایف پی اے)کے مطابق پورے عالم میں ابھی 10 سے 24 سال تک کی عمر کے1.8بلین نوجوان ہیں اور اس حوالے سے بھارت کا سب سے زیادہ حصہ 356ملین ہے۔اس فہرست میں چین 269ملین نوجوانوں کے ساتھ دوسرے،67ملین کے ساتھ انڈونیشیاء تیسرے ،65ملین کے ساتھ امریکہ چوتھے ،59ملین کے ساتھ پاکستان پانچویں،57ملین کے ساتھ نائجیریا چھٹے،51ملین کے ساتھ برازیل ساتویں اور48ملین کے ساتھ بنگلہ دیش آٹھویں نمبر پر ہے۔

بھارت میں ابھی 25 سال کی عمر کےتقریبا 600 ملین نوجوان ہیں، جو ملک کی کل آبادی کانصف سے زیادہ ہے اور یہ نوجوان ہماری دنیا کو ایک بہتر طریقے سے تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تیز ترین ترقی کررہی معیشیت کے بطور بھارت پوری دنیا کے 19فیصدنوجوانوں کا گھر ہے۔دراصل بھارت کا سب سے بڑا اثاثۃ اسکا یہی نوجوان طبقہ ہے اور یہ آبادی کا سب سے با صلاحیت حصہ ہے۔
پھر اس نوجوان آبادی کے طفیل سے بھارت کو ایک منفرد آبادیاتی فائدہ حاصل ہے، لیکن اگر اس انسانی وسائل کی جانب مناسب توجہ مرکوز نہیں کی گئی تو ملک کو اس منفرد حیثیت کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکے گا۔
چناچہ بھارت اقتصادی،آبادیاتی ،تکنیکی اور سماجی تبدیلیوں کے تیز دور سے گزر رہا ہے ،اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیئے کہ ترقی میں سماج کے تمام طبقوں کا حصہ شامل ہو اور اس سے مجموعی طور پر پورا سماج مستفید ہو۔
تاہم اس مقصد کے حصول کیلئے یہ بات لازمی ہے کہ ملک کا نوجوان ملک کی اقتصادی ترقی میں مفید کردار ادا کرے۔لیکن بد قسمتی سے جنوبی کوریا کے 96فیصد کے مقابلے میں بھارت کی افرادی قوت کا محض 2.3فیصد حصہ ہی دورانِ حصولِ تعلیم یا فراغت کے بعد رسمی یا باضابطہ تربیت لے چکا ہے ۔جبکہ بھارت کے گریجویٹوں میں سے فقط20فیصد ہی فوری طور پر کمپنیوں کی جانب سے ملازمت میں لیے جانے کے لائق ہوتے ہیں۔گریجویٹس کا80فیصدکام کے شعبہ کیلئے نا قابلِ قبول ہے۔

سال 2019میں عالمی سطح پر جی ڈی پی رینکنگ میں بھارت چھٹے پائیدان پر رہا۔حالانکہ دنیا کی کل نوجوان آبادی کا اسکے پاس 19فیصد ہے لیکن عالمی جی ڈی پی میں ملک فقط 3 فیصد حصہ ہی درج کرا پائی ہے۔دوسری جانب امریکہ جو دنیا کی کل نوجوان آبادی کا فقط 3 فیصد رکھنے کے باوجود بھی عالمی جی ڈی پی کا 25 فیصہ حصہ پیدا کرسکا ہے جس نتیجے میں وہ اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
چین اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے اور(دنیا کی) نوجوان آبادی کا15فیصد رکھنے والے اس ملک سے عالمی جی ڈی پی کا 16فیصد حصہ پیدا ہوسکا ہے۔ان اعدادوشمار سے صاٖف اشارہ ملتا ہے کہ ملک کی قوتِ نوجوان اور عالمی جی ڈی پی میں ملک کی حصہ داری میں کتنا بڑا خلیج ہے۔
موجودہ صورتحال
او ای سی ڈی کی سال 2014میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق فی الوقت بھارت کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہنر مندوں کی 64فیصد کمی کا ہے جبکہ چین میں یہ کمی محض 24فیصد ہے۔جہاں بھارت اس فہرست میں دوسرا ملک ہے وہیں چین اس فہرست میں آخرالذکر ممالک میں سے ہے۔

ہنر مندوں کی شدید کمی کے مسئلہ سے دو چار ممالک
ہنر مندوں کی شدید کمی کے مسئلہ سے دو چار ممالک

لنکڈ اِن کی رپورٹ کے مطابق 'سال 2020 میں بھارت میں ابھرنے والی ملازمتیں' بازار میں پیدا ہونے والی نئی ملازمتوں کو اجاگر کریں گی۔
اس رپورٹ کے مطابق بازار میں، بلاک چین ڈیولوپرس،آرٹیفیشل انٹیلی جنس اسپیشلسٹس،جاوا اسکرپٹ ڈیولوپرس،رابوٹک پروسیس آٹومیشن کنسلٹنٹ،بیک اینڈ ڈیولوپر،گروتھ منیجر،سائٹ ریلی ایبلٹی انجینئر،کسٹمر سکسیس اسپیشلسٹ،رابوٹکس انجینئر،سائبر سکیورٹی اسپیشلسٹ،پائی تھان ڈیولوپر،ڈیجیٹل مارکٹنگ اسپیشلسٹ اور فرنٹ انڈ انجینئرس جیسی ملازمتیں تیزی کے ساتھ پیدا ہورہی ہیں۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ابھی ہائیپر لیجر،سولیڈٹی،نوٹ جے ایس،اسمارٹ کانٹیکٹ،مشین لرننگ،ڈیپ لرننگ،ٹینسرفلو،پائی تھان پرفارمنگ لینگویج اورنیچرل لینگویج پروسیسنگ(این ایل پی)جیسے ہنر رکھنے والوں کی تلاش کی جارہی ہے۔

سال 2019 میں انفوسس کیٹیلنٹ راڈار رپورٹ میں یوزر ایکسپیرئنس(67فیصد)،انالیٹکس(67فیصد)،آٹومیشن(61فیصد)،آئی ٹی آرکیٹکچربشمولِ کلاوڈ(59فیصد)اور آرٹیفشل انٹیلی جنس(58فیصد)پانچ ایسے ہنروں کو بطور اجاگر کرنا چاہیے، جن کی متعلقہ بازار میں بڑی زبردست مانگ ہے۔
یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ یہ ہنر ملک کی کسی بھی یونیورسٹی یا انجینئرنگ انسٹیچیوٹ میں نہیں سکھائے جاتے ہیں، بلکہ ان اداروں میں تکنیک پڑھانے والے اساتذہ نے تو ان ہنروں کے بارے میں سنا بھی نہیں ہے۔
یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا بھرکے مقابلہ جاتی ملازمت بازار کیلئے اہل نہیں بن پا رہے ہیں۔کلاس روم،ہنر اور آج کی صنعتی دنیا کی ضروریات کے مابین خلیج بڑھتی ہی چلی جارہی ہے جسے تب تک کم یا ختم کرنا ممکن نہیں ہے جب تک ہمارے اداروں میں طلباء کی تربیت کیلئے مناسب اساتذۃ اور دیگر ضروری وسائل دستیاب نہ ہوں۔
صنعتی دنیا میں کاروبار کی ڈیجیٹالائزیشن ایک ایسی چیز ہے جسکے لئے درکار ہنرمندوں کی تلاش کیلئے کمپنیاں جدوجہد کرتی ہیں۔
ورلڈ اکانومک فورم کی پیشن گوئی ہے کہ سال 2025تک خودکاری اور مصنوعی عقلمندی یعنی آرٹیفیشل انٹلیجنس کی وجہ سے 75ملین ملازمتیں ختم ہوجائیں گی، تاہم اس دوران 133ملین نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
اس بات کے پیشِ نظر ملک کو آگے لے جانے کے لیے نئے مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوانوں کو بازار کی نئی ضروریات کے مطابق ہنر سکھانا لازمی ہے۔
اہم ڈھانچہ-کام کا منصوبہ
بھارت کا تعلیمی نظام کئی نوجوان گریجویٹوں کو روزگار مہیا کرانے میں ناکام رہا ہے کیونکہ ان کے پاس تعلیم کے علاوہ ایسا کوئی ہنر نہیں ہوتا ہےکہ وہ جس کے بل پر مقابلہ جاتی بازار میں اتر سکیں، جس کا انہیں کالج کے باہر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صلاحیتوں کا اندازہ لگانے والی ایک بھارتی فرم 'ایسپائرنگ مائنڈس ' کی ایک تحقیق کے مطابق موجودہ علمی معیشت میں 80فیصد بھارتی انجینئر نالائقِ روزگار ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری آف انڈیا کی گذشتہ سال کی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ ہندوستان کے بزنس اسکولوں سے نکنے والے گریجویٹوں کا فقط 7فیصد ہی لائقِ روزگار ہے
سال 2018 میں نوجوانوں کے روزگار پانے کی تخمینہ جاتی شرح 10.42 فیصد تھی بلکہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس شرح کو 10 عدد کے ارد گرد گھومتے ہی دیکھا گیا ہے۔
تاہم صحیح سمت میں بعض اچھے اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں جیسے کہ 'انٹرپرینئرشپ' کو بڑھاوا دینے کیلئے حکومتِ ہند نے 'اسٹارٹ اپ انڈیا' 'اسکل انڈیا مشن' کی شروعات، 'اسکل ڈیولوپمنٹ اینڈ انٹرپرینئرشپ' کیلئے مختص وزارت کا قیام،صنعتی قیادت والے اسکل کونسلز کا قیام اور انڈسٹرئل ٹریننگ انسٹیچیوٹ(آئی ٹی آئی)کے نظام میں بھاری بدلاؤ کیے ہیں۔
وزیرِ خزانہ نرملا سیتھارمن کی جانب سے پیش کردہ مرکزی بجٹ2019-20میں تعلیمی شعبہ کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا اور وزیرِ خزانہ نے بھارت کے اعلیٰ تعلیمی نظام میں تبدیلی کے مقصد سے نئی قومی تعلیمی پالیسی لانے کا اعلان کیا ۔

نوجوانوں کے روزگار کے محاذ پر سرکار طلباء کو متعلقہ ہنر سکھانے پر توجہ مرکوز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ طلباء (تعلیمی اداروں سے)روزگار پانے کے لائق ہوکر نکلیں۔
طلاب کو 'آرٹیفشل انٹیلی جنس'، 'روبوٹکس'،' لینگویج ٹریننگ'،' انٹرنیٹ آف تھنگس'(آئی او ٹی)،' تھری ڈی پرنٹنگ'، ' ورچیول ریئلٹی' اور 'بِگ ڈیٹا'کے جیسے ہنروں کی تربیت دینے کیلئے نئے تربیتی پروگرام متعارف کرائے جائیں گے۔
زمانے کی یہ ہنر مندی بھارت کے نوجوانوں کو درونِ ملک یا بیرونِ ملک روزگار کے مواقع پانے کے اہل بنائے گی۔چونکہ بھارتی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع پانے میں مشکلات درپیش ہیں، لہٰذا انہیں مزید رہنمائی اور کیرئر کونسلنگ کی ضرورت ہے۔
چناچہ 51 فیصد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انکی ہنر مندی کے مطابق موجود روزگار کے مواقع کی جانکاری نہ ہونا ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ جبکہ30 فیصد کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کی رہنمائی یا کیرئر کونسلنگ تک رسائی نہ ہونا انکے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے ۔
ٹین ایج (13سے19سال تک کی عمر)کے نوجوانوں میں ڈپریشن کے حوالے سے بھارت پوری دنیا میں سب سے آگے ہے۔یہاں تک کے ملک میں ہر چار ٹین ایج میں سے ایک فرد ڈپریشن کا شکار ہے۔
انڈیا ٹوڈے کنکلیوممبئی2019کے مطابق گذشتہ پانچ سال میں فی گھنٹہ ایک کی رفتار سے بھارت میں زائد از 40 ہزار طلاب نے خودکشی کی جس سے ٹین ایج ڈپریشن کی تشخیص اور اسکا علاج مزید پیچیدہ بن گیا ہے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ ہر پانچ میں سے ایک بالغ شخصبلند فشارِ خون(ہائی بلڈ پریشر)کے مسئلہ سے دوچار ہے۔
چونکہ صحت کی یہ پریشانیاں ملک کی اصل طاقت یعنی قوتِ نوجوان کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لہٰذا انکی طرف فوری توجہ کی جانی چاہیئے۔

اسکا مطلب یہ ہے کہ اچھی تعلیم اور ہنر مندی کے ساتھ ساتھ سرکار کو صحت کے مسائل کو بھی بڑی سنجیدگی سے لینا چاہیئے کیونکہ تندرست نوجوان ہی کسی ملک کی اصل طاقت ہیں۔
ملک کے نوجوانوں کے مختلف زمروں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک مشترکہ حکمتِ عملی کارگر نہیں ہوسکتی ہے لہٰذا نوجوانوں کو با اختیار بنانے کیلئے ہمیں دیہی طلاب اور پورے ملک کی طالبات کے تعلیمی،ہنر مندی اور صحت کے مسائل کو دیکھنے کیلئے الگ الگ حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔
علاوہ ازیں ہمیں ملک میں نوجوانوں کے سب گروپس ،جیسے ملینئلز اور جنریشن زیڈ پر غور کرنا چاہیئے۔
موجودہ زمانے میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں ٹیکنالوجی کا بڑا اہم کردار ہے یہاں تک کہ ابھی کی دنیا انٹرنیٹ اور موبائل کمیونکیشن پر منحصر ہے۔ہروقت اور ہر جگہ انٹرنیٹ کی رسائی نوجوانوں کی ترقی کی کنجی ہے۔
چونکہ موجودہ نوجوان یا جنریشن زیڈ ٹیکنالوجی کے استعمال میں اچھے ہیں اور کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،آئی پیڈس اور اسمارٹ فون وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں،اس لیے اہم ہے کہ ٹیکنالوجی کو تعلیم اور اور ہنر مندی کی تربیت کے نظام میں گویا ضم کیا جائے۔
حکومت کو اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے ڈھانچہ جیسے انٹرنیٹ سرورس،ڈیٹا سنٹرس،کمپیوٹنگ فیسیلٹیز،اوپٹکل فائبر کیبل نیٹورک،انٹرنیٹ بیڈ وڈتھ بڑھانے اور سٹیلائٹ کمیونکیشن وغیرہ،میں بھاری پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہیئے۔
انڈین انسٹیچیوٹ آف ٹیکنالوجی(آئی آئی ٹی)،انڈین انسٹیچیوٹ آف منیجمنٹ(آئی آئی ایم)اور نیشنل انسٹیچیوٹ آف ٹیکنالوجی(این آئی ٹی) کے سبھی کیمپسزکے طلاب کے لیے پورے ملک میں پرابلم سالونگ اسٹیرنگ کمیٹیز تشکیل کرنی چاہیے جس سے سماج اور ملک میں درپیش بعض اہم مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ایک نہایت ہی اچھی بات ہوسکتی ہے۔

چناچہ ایسا نظام بن جائے تو پورے ملک سے مسائل اور مشکلات کو جمع کرکے ان کمیٹیوں کے سامنے رکھا جاسکتا ہے جو ان پر سوچ و فکر کرکے ان کے مناسب طریقے کا جائزہ لیکر ان کا موثر طریقے سے حل کرسکے۔
یہاں تک کہ ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے جو مسائل کو حل کرنے میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے طالب علم کو تعلیمی کریڈٹ یعنی اچھے نمبرات سے نوازا جائے۔اس خیال کو یونیورسٹیز اورکالجوں یہاں تک کہ اسکولوں تک میں متعارف کرایا جاسکتا ہے تاکہ طالب علم چھوٹی عمر سے ہی مسائل اور انکے حل پر سوچنے کے عادی ہوجائیں اور پھر ایک خود کار طریقہ سے ملکی ترقی میں شامل ہوجائیں۔
دنیا میں کام کی جگہوں پر مشینوں کی موجودگی اور ان کا استعمال بڑی تیزی کے ساتھ ہورہا ہے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سال 2015 تک کام پر رہے 4.9کھرب چھوٹے بڑے روبوٹوں کی تعداد سال 2020 تک 25کھرب سے زیادہ ہوگئی ہے۔
لہٰذا نوجوانوں کو مستقبل میں ان مشینوں کے ساتھ کام کرنے کے چلینج کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرنا چاہیئے۔
یہ سب کرنے کیلئے پرائمری اور سکینڈری سطح کے اسکولوں میں 'سمال روبوٹکس ورکشاپ' متعارف کرائے جاسکتے ہیں اور ساتھ ہی ہمیں ملک کے نوجوانوں میں 'لائف لانگ لرننگ اسٹریٹجی' یعنی عمر بھر تک سیکھتے رہنے کا رجحان پیدا کرنا چاہیئے۔اس سے نوجوانوں کو اپنے آپ کو صنعتی بدلاؤ کے کسی بھی دور میں تازہ دم رکھنے اور لائقِ کار بنائے رکھنے میں مدد ملے گی۔
پرائمری تعلیم کے دوران بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں والدین اور اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہے۔چونکہ پرائمری سطح پر اکیلے اساتذۃ ہی بچوں کی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں لہٰذا اس سطح پر دونوں،والدین اور اساتذہ،کو مشترکہ طور اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
بلکہ ابتدائی سطح پر اساتذہ سے زیادہ خود والدین کا کردار اہم ہے جبکہ سکینڈری اور اعلیٰ تعلیم کے دوران طلاب میں پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے حوالے سے والدین کے مقابلے میں اساتذہ کا کردار اہم ہوجاتا ہے ۔تاہم پرائمری سے لیکر ہر سطح کی تعلیم و تربیت کے دوران اساتذہ کی ٹیم میں ماہرینِ نفسیات اور اسٹوڈنٹ کونسلرس کو شامل کیا جانا چاہیئے۔

Intro:Body:

state


Conclusion:
Last Updated : Feb 18, 2020, 12:14 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.