ممبئی اور جئے پور میں پیٹرول کے دام سابقہ ریکارڈ توڑ کر 90 روپے فی لیٹر، راجستھان میں پریمیم پیٹرول فی لیٹر 100روپے سے زیادہ قیمت میں فروخت ہورہا ہے جبکہ اکتوبر 2018 میں پیٹرول کی قیمت 80 روپے اور ڈیزل 75 روپے فی لیٹر تھی۔ اُس وقت بین الاقوامی بازار میں خام تیل فی بیرل کی قیمت 80 ڈالر تھی۔ تقریباً ایک سال قبل خام تیل کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل تھی، جو محض تین ماہ کے اندر اندر گھٹ کر پچاس فیصد کم ہوگئی۔
آج خام تیل کی قیمت 55 ڈالر فی بیرل ہے لیکن اس کے باوجود پیٹرولیم ایندھن کی قیمتیں تمام سابقہ ریکارڈ توڑ چکی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی کم ترین قیمتوں کے باوجود ہمارے ملک میں پیٹرولیم کے صارفین کو کوئی فائدہ نہیں مل ہے۔ بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ توازن قائم رکھنے کے نام پر صارفین کو آئے دن بڑھتی ہوئی قیمتوں کی مار جھیلنی پڑ رہی ہے۔
دوسری جانب مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا عجیب و غریب جواز بیان کررہے ہیں۔ اُن کے مطابق تیل پیدا کرنے اور اسے برآمد کرنے والے ممالک (آئل پروڈیوسنگ اینڈ ایکسپورٹنگ کنٹریز) سپلائی کو اعتدال پر رکھنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ تیل پیدا کرنے اور اسے برآمد کرنے والے ممالک پچھلے سال اپریل میں اُس وقت بحران کا شکار ہوگئے جب تیل کی ڈیمانڈ یکسر کم ہوگئی تھی۔ بھارت نے ملک میں تیل کی ڈیمانڈ میں کمی کے باوجود تیل کی درآمدگی جاری رکھتے ہوئے ان ممالک کی مدد کی۔
وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ اس مدد کے بدلے میں بھارت کو مناسب قیمت پر تیل فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مختصر الفاظ میں وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ تیل ایکسپورٹ کرنے والے ممالک اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور اس وجہ سے پیٹرول کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ بین الاقوامی بازار میں قیمتیں بڑھتی ہیں یا گھٹتی ہیں، حکومت یہاں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کررہی ہے بلکہ اضافی ٹیکس بھی عائد کرتی ہے۔ کیا یہ یہ کھلے عام لوٹ کے زمرے میں نہیں آتا ہے؟
جنوبی ایشیاء میں پیٹرول کی سب سے زیادہ قیمت بھارت میں ہیں۔ اس ضمن میں دونوں مرکزی اور ریاستی حکومتیں اپنا رول ادا کررہی ہیں کیونکہ دونوں پیٹرولیم ایندھن پر ٹیکس عائد کررہی ہیں۔
پہلے راجستھان کمیٹی نے کہا تھا کہ حکومتوں کی جانب سے ٹیکس عائد کئے جانے کے نتیجے میں پیٹرول کی قیمت میں 56 فیصد اور ڈیزل کی قیمت میں 36 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے لیکن اب تازہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت کی جانب سے ٹیکس عائد کرنے کی وجہ سے پیٹرول کی قیمت میں 67 فیصد اور ڈیزل کی قیمت میں 61 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔
اعداد و شمار بتارہے ہیں کہ 2015 اور 2020 کے دوران ایندھن کے شعبے میں مرکزی حکومت کی آمدنی میں دوگنا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ ریاستی حکومتوں کی آمدنی میں اس عرصے میں 38 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
کنٹرولر جنرل آف اکاونٹس (سی جی اے) نے انکشاف کیا ہے کہ یہاں تک کہ کورونا وبا میں جب پیٹرول کا استعمال یکسر کم ہوگیا تھا، اس شعبے میں مرکزی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہورہا تھا۔
ملک کی کمزور معیشت میں نئی جان ڈالنے کے حوالے سے ایندھن کی ایک انتہائی اہمیت ہے۔ لوگوں کی معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے حوالے سے پیٹرولیم کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اسی لیے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ تمام اقسام کے پیٹرولیم ایندھن بشمول ایل پی جی اور تیل خاکی کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لایا جائے تاکہ ان کی قیمتیں اعتدال پر رہیں۔
تخمینے کے مطابق اگر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے عائد کئے جانے والے ٹیکس کی چھوٹ دی جائے تو ہمیں فی لیٹر پیٹرول محض 30 روپے میں میسر ہوسکتا ہے۔ اس تخمینے کے تناظر میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ایندھن کی قیمتوں پر مناسب ٹیکس عائد کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر بین الاقوامی بازار میں ایندھن کی قیمتوں میں توقع سے زیادہ اضافہ بھی ہوجاتا ہے تب بھی ہمیں ملکی مفاد کی خاطر ایندھن کی قیمتوں پر کم ٹیکس عائد کرنا چاہیے۔
وبا کی وجہ سے پہلے ہی لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوچکی ہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے پیٹرولیم کی قیمتوں پر مزید ٹیکس عائد کرنے سے گریز کرتے ہوئے لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن بننے سے روک سکتی ہیں۔