وادی میں تجارت سے منسلک تمام شعبے تقریباً تین ماہ سے بند ہیں۔ کاروباری مراکز، دکانیں، نجی فیکڑیاں اور یومیہ مزدور پوری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سیب کی کاشتکاری کو کشمیر کی معیشت میں ریڑ کی ہڈی مانا جاتا ہے جو ان دنوں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
غیر ریاستی ڈرائیوروں کی ہلاکت سے سیب کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے، غیر ریاستی ڈرائیورز میں ڈر کا ماحول پیدا ہو رہا ہے جس کے باعث دیگر ڈرائیورز بھی کشمیر جانے سے گھبرا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے جب متعدد ٹرک ڈرائیورز سے بات چیت کی تو انہوں نےکہا کہ' کشمیر میں ٹرانسپورٹ پہلے سے ہی خسارے میں ہے اور اب ٹرک ڈرائیورز کی ہلاکت سے اس صنعت پر بہت برا اثر پڑا ہے'۔
ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرک ڈرائیور بلونت سنگھ نے کہا کہ' مجھے کشمیر جانا ہے، لیکن ڈرائیوز کی ہلاکت کی خبروں نے ہمیں خوف زدہ کردیا ہے، ہم انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیںکہ ہمارےحفاظت کا بندو بست کیا جائے تاکہ ہمارے کام متاثر نہ ہو'۔
خیال د رہے کہ گذشتہ دنوں نامعلوم افراد نے کئی ٹرک پر فائرنگ کرکے متعدد ٹرک ڈرائیورز کو ہلاک کیا تھا، جس کے بعد ڈرائیورز میں خوف کاماحول ہے۔
اس سلسلے میں حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کے پرتشدد واقعات اس مہم کا حصہ ہیں جس کے تحت سیبوں کی برآمد کو روکنے کی کوششیں کی جاری ہیں۔
حکام کا مزید کہنا ہے کہ' ان واقعات کے پیچھے عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہے جو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ کشمیر میں معمولات زندگی درہم برہم ہے اور لوگ ریاست کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے فیصلے کے خلاف سول نافرمانی کررہے ہیں'۔
بتادیں کہ ٹرک ڈرایئورز کی ہلاکت کے بعد شوپیان پولیس نے مغل روڈ پر ہیر پورہ علاقے کے پاس اور شوپیان سرینگر روڈ پر ضلع پلوامہ میں ڈسٹرکٹ پولیس لائنز کے پاس پہرے بیٹھا دیے ہیں اور جو بھی غیر ریاستی ٹرک ڈرائیور شوپیان میں لوڈنگ کے لیے آرہے ہیں انہیں واپس بھیجا جارہا ہے'۔
یادر رہے کہ گذشتہ دنوں جموں و کشمیر کے پولیس سربراہ دل باغ سنگھ نے کہا تھا کہ 'میوہ صنعت سے وابستہ افراد پر حملے کشمیر کی معیشت پر حملہ ہے'۔ انہوں نے مزید کہا تھاکہ 'اس طرح کی کارروائیاں مقامی لوگوں کے مفاد میں نہیں ہیں ہم ان کی مذمت کرتے ہیں'۔