وزیرمملکت برائے خزانہ انوراگ ٹھاکر نے آج لوک سبھا میں وقفہ صفر میں سوال کے ضمنی جواب میں یہ بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ زراعت اور خدمات کے شعبوں پر اقتصادی سستی کا زیادہ اثر پڑا ہے۔ ساتھ ہی مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں بھی تھوڑی سستی دیکھی گئی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ملک کی معاشی ترقی کی شرح اب بھی عالمی معیشت کے مقابلے میں کافی اچھی ہے اور سبھی اقتصادی انڈیکس اس میں مزید اصلاح کی سمت اشارہ کر رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی ترقی کی شرح 2018 کے 3.6 فیصد سے گھٹ کر 2019 میں 2.9 فیصدہی رہ گئی۔ یقینی طور پر اس کا اثر گھریلو معیشت پر بھی پڑا ہے'۔
مسٹر ٹھاکر نے بتایا کہ 'رواں مالی برس میں ملک کی ترقی کی شرح پانچ فیصد رہنے اور اگلے مالی برس میں بڑھ کر چھ سے ساڑھے چھ فیصد کے درمیان پہنچنے کا اندازہ ہے۔ حکومت کی جانب سے کیے گئے اصلاحی اقدامات سے معیشت کو رفتار ملنے کی امید ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'انسالوینسی اور بینک کرپسی کوڈ'نافذ کرنے کے بعد سے بینکوں کے پھنسے قرض میں سے چار لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی وصولی ہوچکی ہے۔ بینکوں کے انضمام اور پھرسے سرمایہ کاری سے ان کی حالت مضبوط ہوئی ہے۔ حکومت نے سرکاری بینکوں میں پھرسے سرمایہ کاری منصوبے کے تحت ان میں 3.5لاکھ کروڑ روپے لگائے ہیں۔ 18 سرکاری بینکوں میں 12 منافع میں ہیں۔ غیر بینکاری مالیاتی کمپنیوں کے پاس بحران میں پھنسے قرض کے لیے رکھے گئے سرمائے کا تناسب 19.5فیصد ہے جبکہ کم ازکم اہلیت 15فیصد کی ہے'۔
مسٹر ٹھاکر نے بتایا کہ آٹھ کور صنعتوں میں سے دسمبر میں پانچ کا انڈیکس مثبت رہا ہے یعنی ان کی پیداوار بڑھی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھ کر 24.4 ارب ڈالر پر پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے پانچ برسوں میں اوسط خوردہ مہنگائی کی شرح 4.1 فیصد رہی ہے جب کہ اس سے پہلے کی حکومت کے وقت میں یہ دوعدد میں ہوا کرتی تھی۔ رواں مالی برس میں مالی خسارہ 3.8فیصد رہنے کا اندازہ ہے۔
خصوصی مالی ترغیبی پیکیج کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر مسٹر ٹھاکر نے کہا کہ مالی محاذ پرحکومت کے ذریعہ اٹھائےگئے سارے قدم ہر شعبہ کو حوصلہ دینے کے لیے ہیں۔