ETV Bharat / bharat

کروڑی لال مینا کے الزامات بے بنیاد: مولانا مجددی - Rejects Kirori Meena allegations

مولانا مجددی نے کہا کہ وقف جائیدادوں سے متعلق عدم معلومات کی وجہ سے کروڑی لال بے بنیاد الزامات عائد کررہے ہیں۔

کروڑی لال مینا کے الزامات بے بنیاد: مولانا مجددی
کروڑی لال مینا کے الزامات بے بنیاد: مولانا مجددی (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 4, 2024, 10:05 AM IST

نئی دہلی / جے پور: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری اور جامعتہ الہدایہ جے پور کے سربراہ مولانا فضل الرحیم مجددی نے ایک پرہجوم میڈیا کانفرنس کے ذریعے 30 ستمبر کو راجستھان کے وزیر زراعت ڈاکٹر کروڑی لال مینا کے الزامات کو بے بنیاد قرارداد ہے ۔انہوں کہاکہ وزیر موصوف کے تمام الزامات من گھڑت، بے بنیاد، وقف جائدادکے بارے میں عدم معلومات پر مبنی اور اور سیاسی بدنیتی سے متاثر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیر موصوف نے مجھ پر الزام عائد کیا ہے کہ میں نے وقف کی 1400 بیگھے زمین پر قبضہ کرلیا ہے اور غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں ان 1400 بیگھوں میں سے صرف 152بیگھے زمین پٹہ داروں سے خریدی ہے جس کے سارے سرکاری دستاویزات میرے پاس ہیں۔اور میں نے کوئیآ زمین فروخت کرنے کو شش نہیں کی ہے۔راجستھا ن کے تمام کورٹوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے جس نے صورت حال جوں کی توں برقرار رکھنے کاحکم دیا ہے۔

کروڑی لال مینا کے الزامات بے بنیاد: مولانا مجددی (Etv Bharat)


مولانا مجددی نے سلسلہ وار الزامات کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ محترم ڈاکٹر کروڑی لال مینا نے 30 ستمبر کو بھارتیہ جنتا پارٹی راجستھان جے پور کے دفتر میں وقف ترمیمی بل 2024 کے حوالے سے بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور دستاویزات کے ان پریس کانفرنس میں ان پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں جن کے حوالے سے وضاحت درج ذیل ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر کروڑی لال مینا نے الزام لگایا کہ فضل الرحیم، ان کی بیٹی ثمرہ سلطانہ، داماد محمد شعیب کانگریس پارٹی کے عہدیدار ہیں اور کانگریس پارٹی کے کہنے پر ملک کا ماحول خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔
جامعہ ہدایت کا وقف نامہ 11.12.1972 کو سیٹلرمرحوم محمد عبدالرحیم نے بنایا تھا جسے وقف بورڈ میں رجسٹریشن نمبر 600 مورخہ 16.03.1974 کے ساتھ رجسٹر کیا گیا تھا۔ مولانا محمد فضل الرحیم اس وقت سے وقف جامعہ ہدایت کے بانی متولی ہیں۔ جامعہ ہدایت کی زیادہ سے زیادہ جائیدادیں محمد فضل الرحیم نے رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے خریدی ہیں۔ وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 26 (37) کے تحت وقف جائیدادوں کا اندراج کیا گیا ہے۔ محمد فضل الرحیم کی طرف سے وقف املاک کے سلسلے میں نہ تو کوئی سیل ڈیڈ اور نہ ہی کوئی معاہدہ کبھی عمل میں آیا ہے۔ محمد فضل الرحیم کی طرف سے اخبارات میں ایک ریلیز جاری کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جامعہ ہدایت کی وقف املاک کی خرید و فروخت نہ کرے، کہ ضیاء الرحیم، ندیم رحیم، فہد رحیم، رضوان خان، شکیل خان اور کچھ دوسرے افراد جامعہ ہدایت کی وقف املاک پر قبضہ کر رہے ہیں اور معاہدے کو دھوکہ دہی سے عمل میں لا کر اسے فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے خلاف محمد فضل الرحیم نے درخواست دائر کی ہے۔ درج ذیل فرسٹ انفارمیشن رپورٹ نمبر 0376/2024، 079/2023 اور 275560672201099 پولیس اسٹیشن جے سنگھ پورہ میں درج کی گئی ہیں۔


مولانا مجددی نے کہاکہ مسٹر کروڑی لال مینا ہمارے بھی وزیر ہیں، ہم ان کا احترام کرتے ہیں اگر ان کو کوئی غکط فہمی ہے تو ہم ان کی غلط فہمی دور کنے کے لئے تیار ہیں۔ ان کے تعلق سے ہمارے دل میں کوئی غلط رائے نہیں ہیں۔ راجسیھان ہائی کورٹ کے سینئر وکیل ایم اے خاں نے قانون کی روشنی میں الزامات جواب دیتے ہوئے کہاکہ 1 مسٹر کروڑی لال مینا جی کا یہ الزام کہ محمد فضل الرحیم نے مندر معافی کی 1400 بیگھہ زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، یہ الزام بے بنیاد ہے۔ تقریباً 20-25 بیگھہ اراضی محمد فضل الرحیم نے ان افراد سے رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے خریدی ہے جو مان پور سدھوا میں ریاستی حکومت کے زیر انتظام جمع بندی میں ریکارڈ شدہ کھاتہ دار کے طور پر دکھائے گئے ہیں۔ اس کے بعد جامعہ ہدایت کا نام ریونیو ریکارڈ میں مجاز افسر نے میوٹیشن کے ذریعے درج کرایا۔ مذکورہ جائیداد مندرمعافی کی ملکیت نہیں ہے۔ اراضی اصلاحات 1952 کے بعد زمین پر قبضہ کرنے والیکاشت کاروں کو حقوق مل گئے اور انہیں مکمل مالک قرار دیا گیا، اس طرح ان کے نام جمع بندی میں کرایہ دار کے طور پر درج کیے گئے اور انہیں زمین بیچنے کا حق حاصل تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاستی حکومت کی طرف سے دائر عرضی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جس پر مزید تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔


لا لواس اور آمیر تحصیل میں 1400 بیگھہ مین اس وقت کے مہاراجہ جے پور کی ملکیت تھی۔ مذکورہ جائیداد میں سے 152 بیگھہاراضی جامعہ ہدایت کو اس کے لیز ہولڈر نے فروخت کی تھی۔ مذکورہ 1400 بیگھہ زمین ریاستی حکومت نے جون 1990 میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اور راجستھان پولیس ڈیپارٹمنٹ کو غیر قانونی طور پر منتقل کی تھی۔ راجستھان ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے خصوصی اپیل رٹ نمبر 500/2009 میں مورخہ 11.01.2010 کے اپنے فیصلے کے ذریعے جامعہ ہدایت کے حق میں فیصلہ دیا اور 152 بیگھہ اراضی پر جامعہ ہدایت کی ملکیت کو برقرار رکھا۔4. مذکورہ فیصلے کے خلاف ریاستی حکومت اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (CRPF) کی طرف سے معزز سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا ہے، جو فی الحال زیر التوا ہے۔ معزز سپریم کورٹ نے متنازعہ اراضی پر جمود برقرار رکھنے کے عبوری احکامات جاری کر دیئے۔5. معزز سپریم کورٹ کے عبوری حکم کی تعمیل میں، ہنی ڈیو رینج کی کل 1400 بیگھہ اراضی میں سے، جامعہ ہدایت کی جانب سے خریدی گئی 152 بیگھہ اراضی پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہوا ہے۔ آج بھی مذکورہ زمین کھلی زمین ہے۔


ایڈووکیٹ خاں نے کہا کہ کروڑی لال مینا کی جانب سے پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو پیش کیا گیا جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ محمد فضل الرحیم مسلمانوں کو اکسارہے ہیں، یہ الزام بے بنیاد ہے۔ دراصل ویڈیو میں ضیاء الرحیم بیان دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کروڑی لال مینا کا یہ بیان کہ جے پور کے سادھوا موڈ پر نیا پاکستان قائم کیا گیا ہے، غیر مہذب اور ملک دشمن ہے۔ حال ہی میں، معزز سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج کے اسی طرح کے تبصرہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کے کسی بھی حصے کو پاکستان کہنا غیر منصفانہ اور ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے۔


انہوں نے کہاکہ کروڑی لال مینا کا یہ بیان کہ سالانہ 1000 کروڑ روپے کا عطیہ بیرونی ممالک سے آتا ہے، یہ الزام بے بنیاد ہے۔ درحقیقت اگر بیرون ملک سے کوئی عطیہ آتا ہے تو اسے حکومت ہند کے محکمہ داخلہ کے پاس ایف سی آر اے کے تحت جمع کرایا جاتا ہے۔ سیل میں رجسٹر ہونا ضروری۔ جامعہ ہدایت اور مولانا عبدالرحیم ایجوکیشنل ٹرسٹ رجسٹرڈ تنظیم ہے۔ ماضی میں جب بھی بیرون ملک سے چندہ آتا تھا تو اس کی تفصیلی تفصیلات پیش کی جاتی تھیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 4 سالوں میں بیرون ملک سے کسی قسم کا کوئی عطیہ نہیں ملا۔ممبئی میں مقیم قبائلیوں کی زمین بیچنے کا الزام جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ قبائلیوں کی جائیداد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:


خاں نے کہا کہ محمد فضل الرحیم نے مسلم پرسنل لابورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے وقف ترمیمی بل میں ترمیم کے بارے میں ملک کے مختلف لیڈروں سے ملاقات کی ہے اس میں کسی بھی طرح سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی ہے۔ جے پی سی یس سی بی کے چیئرمین مسٹر جگدمبیکا پال نے بھی محمد فضل الرحیم کو وقف ترمیمی بل کے بارے میں بحث کے لیے مدعو کیا تھا۔

نئی دہلی / جے پور: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری اور جامعتہ الہدایہ جے پور کے سربراہ مولانا فضل الرحیم مجددی نے ایک پرہجوم میڈیا کانفرنس کے ذریعے 30 ستمبر کو راجستھان کے وزیر زراعت ڈاکٹر کروڑی لال مینا کے الزامات کو بے بنیاد قرارداد ہے ۔انہوں کہاکہ وزیر موصوف کے تمام الزامات من گھڑت، بے بنیاد، وقف جائدادکے بارے میں عدم معلومات پر مبنی اور اور سیاسی بدنیتی سے متاثر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیر موصوف نے مجھ پر الزام عائد کیا ہے کہ میں نے وقف کی 1400 بیگھے زمین پر قبضہ کرلیا ہے اور غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں ان 1400 بیگھوں میں سے صرف 152بیگھے زمین پٹہ داروں سے خریدی ہے جس کے سارے سرکاری دستاویزات میرے پاس ہیں۔اور میں نے کوئیآ زمین فروخت کرنے کو شش نہیں کی ہے۔راجستھا ن کے تمام کورٹوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے جس نے صورت حال جوں کی توں برقرار رکھنے کاحکم دیا ہے۔

کروڑی لال مینا کے الزامات بے بنیاد: مولانا مجددی (Etv Bharat)


مولانا مجددی نے سلسلہ وار الزامات کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ محترم ڈاکٹر کروڑی لال مینا نے 30 ستمبر کو بھارتیہ جنتا پارٹی راجستھان جے پور کے دفتر میں وقف ترمیمی بل 2024 کے حوالے سے بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور دستاویزات کے ان پریس کانفرنس میں ان پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں جن کے حوالے سے وضاحت درج ذیل ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر کروڑی لال مینا نے الزام لگایا کہ فضل الرحیم، ان کی بیٹی ثمرہ سلطانہ، داماد محمد شعیب کانگریس پارٹی کے عہدیدار ہیں اور کانگریس پارٹی کے کہنے پر ملک کا ماحول خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔
جامعہ ہدایت کا وقف نامہ 11.12.1972 کو سیٹلرمرحوم محمد عبدالرحیم نے بنایا تھا جسے وقف بورڈ میں رجسٹریشن نمبر 600 مورخہ 16.03.1974 کے ساتھ رجسٹر کیا گیا تھا۔ مولانا محمد فضل الرحیم اس وقت سے وقف جامعہ ہدایت کے بانی متولی ہیں۔ جامعہ ہدایت کی زیادہ سے زیادہ جائیدادیں محمد فضل الرحیم نے رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے خریدی ہیں۔ وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 26 (37) کے تحت وقف جائیدادوں کا اندراج کیا گیا ہے۔ محمد فضل الرحیم کی طرف سے وقف املاک کے سلسلے میں نہ تو کوئی سیل ڈیڈ اور نہ ہی کوئی معاہدہ کبھی عمل میں آیا ہے۔ محمد فضل الرحیم کی طرف سے اخبارات میں ایک ریلیز جاری کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جامعہ ہدایت کی وقف املاک کی خرید و فروخت نہ کرے، کہ ضیاء الرحیم، ندیم رحیم، فہد رحیم، رضوان خان، شکیل خان اور کچھ دوسرے افراد جامعہ ہدایت کی وقف املاک پر قبضہ کر رہے ہیں اور معاہدے کو دھوکہ دہی سے عمل میں لا کر اسے فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے خلاف محمد فضل الرحیم نے درخواست دائر کی ہے۔ درج ذیل فرسٹ انفارمیشن رپورٹ نمبر 0376/2024، 079/2023 اور 275560672201099 پولیس اسٹیشن جے سنگھ پورہ میں درج کی گئی ہیں۔


مولانا مجددی نے کہاکہ مسٹر کروڑی لال مینا ہمارے بھی وزیر ہیں، ہم ان کا احترام کرتے ہیں اگر ان کو کوئی غکط فہمی ہے تو ہم ان کی غلط فہمی دور کنے کے لئے تیار ہیں۔ ان کے تعلق سے ہمارے دل میں کوئی غلط رائے نہیں ہیں۔ راجسیھان ہائی کورٹ کے سینئر وکیل ایم اے خاں نے قانون کی روشنی میں الزامات جواب دیتے ہوئے کہاکہ 1 مسٹر کروڑی لال مینا جی کا یہ الزام کہ محمد فضل الرحیم نے مندر معافی کی 1400 بیگھہ زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، یہ الزام بے بنیاد ہے۔ تقریباً 20-25 بیگھہ اراضی محمد فضل الرحیم نے ان افراد سے رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے خریدی ہے جو مان پور سدھوا میں ریاستی حکومت کے زیر انتظام جمع بندی میں ریکارڈ شدہ کھاتہ دار کے طور پر دکھائے گئے ہیں۔ اس کے بعد جامعہ ہدایت کا نام ریونیو ریکارڈ میں مجاز افسر نے میوٹیشن کے ذریعے درج کرایا۔ مذکورہ جائیداد مندرمعافی کی ملکیت نہیں ہے۔ اراضی اصلاحات 1952 کے بعد زمین پر قبضہ کرنے والیکاشت کاروں کو حقوق مل گئے اور انہیں مکمل مالک قرار دیا گیا، اس طرح ان کے نام جمع بندی میں کرایہ دار کے طور پر درج کیے گئے اور انہیں زمین بیچنے کا حق حاصل تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاستی حکومت کی طرف سے دائر عرضی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جس پر مزید تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔


لا لواس اور آمیر تحصیل میں 1400 بیگھہ مین اس وقت کے مہاراجہ جے پور کی ملکیت تھی۔ مذکورہ جائیداد میں سے 152 بیگھہاراضی جامعہ ہدایت کو اس کے لیز ہولڈر نے فروخت کی تھی۔ مذکورہ 1400 بیگھہ زمین ریاستی حکومت نے جون 1990 میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اور راجستھان پولیس ڈیپارٹمنٹ کو غیر قانونی طور پر منتقل کی تھی۔ راجستھان ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے خصوصی اپیل رٹ نمبر 500/2009 میں مورخہ 11.01.2010 کے اپنے فیصلے کے ذریعے جامعہ ہدایت کے حق میں فیصلہ دیا اور 152 بیگھہ اراضی پر جامعہ ہدایت کی ملکیت کو برقرار رکھا۔4. مذکورہ فیصلے کے خلاف ریاستی حکومت اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (CRPF) کی طرف سے معزز سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا ہے، جو فی الحال زیر التوا ہے۔ معزز سپریم کورٹ نے متنازعہ اراضی پر جمود برقرار رکھنے کے عبوری احکامات جاری کر دیئے۔5. معزز سپریم کورٹ کے عبوری حکم کی تعمیل میں، ہنی ڈیو رینج کی کل 1400 بیگھہ اراضی میں سے، جامعہ ہدایت کی جانب سے خریدی گئی 152 بیگھہ اراضی پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہوا ہے۔ آج بھی مذکورہ زمین کھلی زمین ہے۔


ایڈووکیٹ خاں نے کہا کہ کروڑی لال مینا کی جانب سے پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو پیش کیا گیا جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ محمد فضل الرحیم مسلمانوں کو اکسارہے ہیں، یہ الزام بے بنیاد ہے۔ دراصل ویڈیو میں ضیاء الرحیم بیان دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کروڑی لال مینا کا یہ بیان کہ جے پور کے سادھوا موڈ پر نیا پاکستان قائم کیا گیا ہے، غیر مہذب اور ملک دشمن ہے۔ حال ہی میں، معزز سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج کے اسی طرح کے تبصرہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کے کسی بھی حصے کو پاکستان کہنا غیر منصفانہ اور ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے۔


انہوں نے کہاکہ کروڑی لال مینا کا یہ بیان کہ سالانہ 1000 کروڑ روپے کا عطیہ بیرونی ممالک سے آتا ہے، یہ الزام بے بنیاد ہے۔ درحقیقت اگر بیرون ملک سے کوئی عطیہ آتا ہے تو اسے حکومت ہند کے محکمہ داخلہ کے پاس ایف سی آر اے کے تحت جمع کرایا جاتا ہے۔ سیل میں رجسٹر ہونا ضروری۔ جامعہ ہدایت اور مولانا عبدالرحیم ایجوکیشنل ٹرسٹ رجسٹرڈ تنظیم ہے۔ ماضی میں جب بھی بیرون ملک سے چندہ آتا تھا تو اس کی تفصیلی تفصیلات پیش کی جاتی تھیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 4 سالوں میں بیرون ملک سے کسی قسم کا کوئی عطیہ نہیں ملا۔ممبئی میں مقیم قبائلیوں کی زمین بیچنے کا الزام جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ قبائلیوں کی جائیداد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:


خاں نے کہا کہ محمد فضل الرحیم نے مسلم پرسنل لابورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے وقف ترمیمی بل میں ترمیم کے بارے میں ملک کے مختلف لیڈروں سے ملاقات کی ہے اس میں کسی بھی طرح سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی ہے۔ جے پی سی یس سی بی کے چیئرمین مسٹر جگدمبیکا پال نے بھی محمد فضل الرحیم کو وقف ترمیمی بل کے بارے میں بحث کے لیے مدعو کیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.