آج پورے ملک میں کسی بازار میں جائیں، آپ کو چھوٹے بچے سائیکل، موٹر سائیکل کی دکان، ہوٹل یا سبزی فروخت کرتے ہوئے آسانی سے مل جائیں گے، لیکن کیا آپ نے کبھی ان سے سوال کیا ہےکہ وہ جو کام کر رہے ہیں، اس میں ان کی رضا مندی شامل ہے؟
اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں ای ٹی وی بھارت نے بچہ مزدوروں سے بات چیت کرکے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
کچھ بچوں کا کہنا ہے کہ وہ مجبوری سے کر رہے ہیں، اگر انہیں موقع ملتا ہے تو وہ اپنے کام کے ساتھ پڑھائی بھی مکمل کریں گے، لیکن کچھ بچے ایسے بھی تھے، جنہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ان کا دل نہیں لگتا تھا، لہٰذا انہوں نے کام کرنے کو اپنا مقصد بنالیا۔
امیر گھرانے کے بچے پارکوں میں کھیلتے ہیں اور پرائیوٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن جو غریب طبقے کے بچے ہوتے ہیں ان کی مجبوری کہیے یا قسمت کی مار چند برسوں میں ہی ان کی پڑھائی ختم کرا کر کسی کام میں لگا دیا جاتا ہے۔
والدین کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ اگر بچپن میں کام کریں گے تو دو وقت کی روٹی آسانی سے میسر ہو جائے گی، ورنہ ادھر ادھر محلے میں آوارہ گردی کریں گے۔
جن معصوم بچوں کے ہاتھوں میں قلم کتاب ہونا چاہیے تھا، ان کے ہاتھوں میں ترازو، سائیکل کے پرزے غیرہ ہیں۔ جن بچوں کی آنکھوں میں ایک خواب ہونا چاہیے تھا، آج ان کے خواب ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں۔