آر ایس ایس نے یہاں کافی کامیابی حاصل کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ شاخیں اسی علاقے میں ہے۔
حال میں ہی ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو دوبارہ کامیابیحاصل ہوئی ہے۔ لیکن کیرالہ میں اسے ایک بھی سیٹ پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اکتوبر 2018 میں پارٹی نے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے پر سپریم کورٹ کی اجازت ملنے کے خلاف بڑی تحریک چھیڑی تھی۔لیکن اس سے بھی اسے کیرالہ میں کوئی سیٹ جیتنے کا فائدہ نہیں ہوا۔
بی جے پی کی سب سے اچھی کارکردگی ترووننت پورم سیٹ پر رہی جہاں بی جے پی امیدوار دوسرے مقام پر رہا۔ یہاں سے منی پور کے گورنر رہے کمنم راجشیکھرن نے اپنا عہدہ چھوڑ کر کانگریس کے ششی تھرور کے خلاف چناؤ لڑا لیکن کامیاب نہیں ہوپائے۔
کانگریس کی قیادت والے یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کو لوگوں نے 20 میں سے 19 سیٹوں پر تاریخی جیت کیوں دلائی اس پر الگ الگ باتیں کی جارہی ہے۔
سی پی ایم کی قیادت والی لفٹ ڈیمو کریٹک فرنٹ ایک ہی سیٹ پر کامیابی حاصل کرسکی ہے وہ بھی 10 ہزار ووٹوں کے فرق سے جب کہ باقی سیٹوں پر کانگریس کے امیدواروں نے ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے راجیہ سبھا کے رکن و سابق ریاستی صدر مرلی دھرن نے کہا کہ سی پی ایم کی قیادت والی فرنٹ نے سبری مالا مندر واقعے کو جس طرح سے سنبھالا، سبری مالا کے حامیوں نے اسی پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پینرائی وجین سرکار کو فائدہ ہو۔ اسی لیے انہوں نے کانگریس کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیاجو سی پی ایم کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں تھی۔
سبری مالا تحریک کے دوران ریاست کی یونٹ کی قیادت کرنے والے شری دھرن پیلو بی جے پی کو کوئی بھی سیٹ پر کامیابی حاصل نہ ہونے میں کوئی خرابی نہیں مانتے ان کا ماننا ہے کہ وقت کے ساتھ پارٹی مضبوط مقام پر ہی پہنچی ہے۔
پیلو نے کہا کہ عوام نے بی جے پی کے ووٹ شیئر میں 60 فیصدی زائد ہوئی ہے۔ 2014 میں ہمیں 19 لاکھ ووٹ ملے تھے یعنی ووٹرز کے تقریبا10 فیصد ہےاس بار 32 لاکھ ووٹ ملے ہیں جو 16 فیصدی ہے۔
پیلو کہتے ہیں کہ بی جے پی کے لیے اسمبلی یا لوک سبھا انتخابات میں اپنی حاضری درج کروانے کی راہ میں کیرالہ کی آبادی کا بڑا کردار ہے۔
کیرالہ میں اقلیتوں کی آبادی زیادہ ہے۔ مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے زیادہ ہے، دونوں کو ملا دیا جائے تو کل 46 فیصدی ووٹرز ہیں۔ وہ پورے ملک میں موجود ہیں۔ تراونکور کوچی علاقے میں عیسائیوں کی آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے جب کہ مالابار میں مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے زائد ہے۔
پیلو کہتے ہیں کہ اقلیتی طبقے ہمیشہ ہمیں شکست دینے کی کوشش کریں گے یہ بد قسمتی ہے۔ ہم اس کے لیے اقلیتوں کو مجرم نہیں ٹہراسکتے لیکن یہ سچ ہے۔ اسی لیے ہمارے لیے جیت ناممکن ہے۔
کیرالہ میں اقلیتوں نے کانگریس کی قیادت والے یو ڈی ایف کو ہی حمایت کیا ہے جس کی عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان اچھے روابط ہیں۔
دوسری جانب اس بار پسماندہ ذاتوں کی ووٹ بھی لفٹ فرنٹ کو ملا۔ حالانکہ اس بار نائر کمیونیٹی نے پوری طرح کانگریس کی حمایت کی، ساتھ ہی راہل گاندھی کا وائناڈ سے امیدواری کرنا بھی کانگریس کے کارکنان میں جوش پیدا کردیا۔
پیلو کہتے ہیں کہ سبھی اقلیتی طبقے چاہتے ہیں کہ دہلی میں اس بار حکومت بدلے وہ نہیں چاہتے تھے کہ نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم بنیں۔ یہاں مودی کے خلاف لہر تھی کیوں کہ 40 فیصد سے زیادہ آبادی اقلیتوں کی ہے۔
سینیئر سیاسی تجزیہ کار بی آر پی بھاسکر کیرالہ کی عوام کے ووٹ بی جے پی کے نہ ملنے کی وجہ بتاتے ہیں کہ اقلیتوں کی آبادی 50 فیصدی کے قریب ہونے کے بنیاد پر آبادی کی بحث کو وہ بی جے پی کی راہ میں دوسری رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہنا ہے کہ میں کیرالہ پونر جاگرن یا کیرالہ رینیسانس نام سے پہچانے جانے والے سماج سدھار تحریک کو میں پہلی رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہوں۔ بی جے پی کی ہندوتوا کے نظریہ اس سماج سدھار تحریک کی بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔
بھاسکر کہتے ہیں کہ کیرالہ رینیسانس کے سب سے بڑے رہنما نارائن گرو کسی کے خلاف نہیں تھے۔ یہ تحریک سیکولر تھی۔ اس کی وجہ سے ایسے سماج کی بنیاد پڑی جہاں مذہبی اور ذات پات کے لیے جگہ نہیں تھی۔ یہاں مذہب اور روایات کا انڈرکرنٹ ہے لیکن یہ کسی ذات یا برادری کے خلاف نہیں ہے۔
بی جے پی کو اعلی ذات کی پارٹی مانا جاتا ہے اسی لیے کیرالہ میں یہ بات بی جے پی کے خلاف جاتی ہے۔ تمل ناڈو میں بھی یہ بات دیکھنے کو ملتی ہےبی جے پی کو یہاں تمام سیٹوں پر شکست ہوئی۔
تمل ناڈو میں پیرییار تحریک کی وجہ بی جے پی اور اس کی اتحادی ناکام ہوئے ہیں۔ بی جے پی ایسی پارٹی کے طور پر دیکھی جاتی ہے جو ذات پر مبنی نظریے کی سیاست کر تی ہے۔
مرلی دھرن رینیسانس مومنٹ کو رکاوٹ کے طور پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہےوہ کہتے ہیں: ' کچھ علاقوں میں اقلیتوں کا پولرائزیشن ہوا ہے مگر بی جے پی کی شکست اسی لیے ہوئی ہے کیوں کہ اکثریت اتنی تعداد میں بی جے پی کی حمایت میں نہیں آئے جتنی امید کی جارہی تھی۔
پیلو کے اس نظریے سے بھاسکر رضامند نہیں کہ کیرالہ کے ووٹرز نہیں چاہتے تھے کہ دہلی میں بی جے پی کی سرکار دوبارہ بنے۔
وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے دو امکانات پر سوچا کہ یا تو یو ڈی ایف کو ووٹ دیں یا ایل ڈی ایف انہوں نے یو ڈی ایف کو دہلی میں بی جے پی کے اختیارات کے طور پر دیکھا نہ کہ ایل ڈی ایف کو۔
بی جے پی کے پاس اختیارات کیا ہے اسے لے کر پیلو ایک دم صاف ہیں وہ کہتے ہیں ہم عیسائی لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کررہے ہیں آئندہ انتخابات میں ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔