ETV Bharat / briefs

جموں و کشمیر کے خواجہ سراؤں کی حالتِ زار پر خصوصی رپورٹ - challenges

یہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ کمزور طبقہ ہے جو مر مر کے جیتا ہے ۔ان کی ظاہری چمک دمک، چہرے پر میک اپ کی تہہ، بلند آواز کے ساتھ گونجنے والے قہقہے اور ذرق برق ملبوسات بھی ان کی دکھ بھری زندگی کی اصل حقیقت چھپانے سے قاصر ہیں۔

خواجہ سراؤں کی حالتِ زار
author img

By

Published : Jun 12, 2019, 3:30 PM IST

خواجہ سرا پیدائش سے لے کر موت تک جن مشکلات اور مصائب سے گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانے اور اس کا سامنا کرنے کو ہمارا سماج تیار نہیں ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 کے قریب درج ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔

خواجہ سراؤں کی حالتِ زار

خواجہ سراؤں کےلئے نہ صرف دو وقت کی روزی روٹی جٹا پانا مشکل ہو رہا ہے بلکہ روزمرہ کے باقی معملات کے تئیں بھی انہیں کئ سارے مشکلات کا سامناہے نہ تو انہیں ابھی تک اپنے تیسرے جسن ہونے کے بنیادی حقوق ہی فراہم کئے جارہے ہیں اور نہ ہی سرکاری کی جانب سے سماج کے اس طبقے کو کسی قسم کی سہولت یا مراعات ہی میسر ہے۔


ایک جانب خواہ سرا شادی بیاہ کی تقاریب پر ناچ گانے یا لڑکے لڑکیوں کے رشتہ انجام دینے کے کام سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔تاہم دور جدید کے چلن سے اب ان کا کام بھی لگ بھگ بند ہوگیا ہے جس وجہ سے یہ مزید تذبذب کے شکار ہیں۔


دوسری جانب ستم ظریفی یہ کہ 2014 میں عدالت عظمی نے ایک فیصلے کے تحت تیسرے جنس کے بطور درجہ دیا تو ہے مگر ریاست جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کی رو سے بھی انہیں کوئی شناخت نہیں مل رہی ہے۔


خواجہ سرا شبنم کا کہنا کہ پیدائش سے لے کر موت تک ہماری زندگی کٹھن اور مشکلات سے بھری۔پڑی ہے وہیں اگرچہ جوانی میں کسی طریقے سے روٹی روزی کما بھی لیتے ہیں تاہم بوڈھاپے میں خواجہ سرا مکمل طور محتاجی کی زندگی بسر کرتا ہے۔

دوسری جانب ببلو کا کہنا ہے ریاست میں کسی بھی حکومت نے ان کے حقوق کے لئے کام نہیں کیا اور اگر کسی وقت تحفظات کے حوالے سے کوئی بات کہی بھی گئی تاہم وہ کاغذات اور اعلانات تک محدود رہی۔

وادی کشمیر میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سونزل کے چیرپرسن کا کہنا ہے عدالت عظمی نے اپنے ایک فیصلے میں نالسہ کے تحت خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کا درجہ دیا تو ہے لیکن ریاست جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کو عملایا نہیں جارہا ہے ۔ ڈاکڑ اعجاز احمد بند نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو حقوق دلوانے کے تعلق سے تنظیم 2011 سے کئی ایوانوں میں لڑ رہی لیکن کامیابی ابھی نہیں ہو پا رہی ہے

ضرورت اس بات کی ہے خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے درجہ کے تحت حقوق اور تحفظات کی پاسداری عمل میں لائی جائے تاکہ یہ بھی اپنی زندگی سماج میں بہتر ڈھنگ سے گزار سکے۔

خواجہ سرا پیدائش سے لے کر موت تک جن مشکلات اور مصائب سے گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانے اور اس کا سامنا کرنے کو ہمارا سماج تیار نہیں ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 کے قریب درج ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔

خواجہ سراؤں کی حالتِ زار

خواجہ سراؤں کےلئے نہ صرف دو وقت کی روزی روٹی جٹا پانا مشکل ہو رہا ہے بلکہ روزمرہ کے باقی معملات کے تئیں بھی انہیں کئ سارے مشکلات کا سامناہے نہ تو انہیں ابھی تک اپنے تیسرے جسن ہونے کے بنیادی حقوق ہی فراہم کئے جارہے ہیں اور نہ ہی سرکاری کی جانب سے سماج کے اس طبقے کو کسی قسم کی سہولت یا مراعات ہی میسر ہے۔


ایک جانب خواہ سرا شادی بیاہ کی تقاریب پر ناچ گانے یا لڑکے لڑکیوں کے رشتہ انجام دینے کے کام سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔تاہم دور جدید کے چلن سے اب ان کا کام بھی لگ بھگ بند ہوگیا ہے جس وجہ سے یہ مزید تذبذب کے شکار ہیں۔


دوسری جانب ستم ظریفی یہ کہ 2014 میں عدالت عظمی نے ایک فیصلے کے تحت تیسرے جنس کے بطور درجہ دیا تو ہے مگر ریاست جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کی رو سے بھی انہیں کوئی شناخت نہیں مل رہی ہے۔


خواجہ سرا شبنم کا کہنا کہ پیدائش سے لے کر موت تک ہماری زندگی کٹھن اور مشکلات سے بھری۔پڑی ہے وہیں اگرچہ جوانی میں کسی طریقے سے روٹی روزی کما بھی لیتے ہیں تاہم بوڈھاپے میں خواجہ سرا مکمل طور محتاجی کی زندگی بسر کرتا ہے۔

دوسری جانب ببلو کا کہنا ہے ریاست میں کسی بھی حکومت نے ان کے حقوق کے لئے کام نہیں کیا اور اگر کسی وقت تحفظات کے حوالے سے کوئی بات کہی بھی گئی تاہم وہ کاغذات اور اعلانات تک محدود رہی۔

وادی کشمیر میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سونزل کے چیرپرسن کا کہنا ہے عدالت عظمی نے اپنے ایک فیصلے میں نالسہ کے تحت خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کا درجہ دیا تو ہے لیکن ریاست جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کو عملایا نہیں جارہا ہے ۔ ڈاکڑ اعجاز احمد بند نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو حقوق دلوانے کے تعلق سے تنظیم 2011 سے کئی ایوانوں میں لڑ رہی لیکن کامیابی ابھی نہیں ہو پا رہی ہے

ضرورت اس بات کی ہے خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے درجہ کے تحت حقوق اور تحفظات کی پاسداری عمل میں لائی جائے تاکہ یہ بھی اپنی زندگی سماج میں بہتر ڈھنگ سے گزار سکے۔

Intro:خواجہ سراؤں کی حالتِ زار


Body: یہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ کمزور طبقہ ہے جو مر مر کے جیتا ہے ۔ان کی۔ظاہری چمک دمک،چہرے پر میک اپ کی تہیہ ،اونچے قہقہے اور ذرق و برق ملبوسات بھی ان کی دکھ بری زندگی کی اصل حقیقت چھپانے سے قاصر ہیں۔
خواجہ سرا پیدائش سے لے کر موت تک جن مشکلات اور مصائب سے گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانے اور اس کا سامنا کرنے کو ہمارا سماج تیار نہیں ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 کے قریب درج ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔
خواجہ سراؤں کےلئے نہ صرف دو وقت کی روزی روٹی جٹا پانا مشکل ہو رہا ہے بلکہ روزمرہ کے باقی معملات کے تئیں بھی انہیں کئ سارے مشکلات کا سامناہے نہ تو انہیں ابھی تک اپنے تیسرے جسن ہونے کے بنیادی حقوق ہی فراہم کئے جارہے ہیں اور نہ ہی سرکاری کی جانب سے سماج کے اس طبقے کو کسی قسم کی سہولت یا مراعات ہی میسر ہے۔
ایک جانب خواہ سرا شادی بیاہ کی تقاریب پر ناچ گانے یا لڑکے لڑکیوں کے رشتہ انجام دینے کے کام سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔تاہم دور جدید کے چلن سے اب ان کا کام بھی لگ بھگ بند ہوگیا ہے جس وجہ سے یہ مزید تذبذب کے شکار ہیں۔
دوسری جانب ستم ظریفی یہ کہ 2014 میں عدالت عظمی نے ایک فیصلے کے تحت تیسرے جنس کے بطور درجہ دیا تو ہے مگر ریاست جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کی رو سے بھی انہیں کوئی شناخت نہیں مل رہی ہے۔
خواجہ سرا شبنم کا کہنا کہ پیدائش سے لے کر موت تک ہماری زندگی کٹھن اور مشکلات سے بھری۔پڑی ہے وہیں اگرچہ جوانی میں کسی طریقے سے روٹی روزی کما بھی لیتے ہیں تاہم بوڈھاپے میں خواجہ سرا مکمل طور محتاجی کی زندگی بسر کرتا ہے۔

بائٹ1:شبنم۔ خواجہ سرا

دوسری جانب ببلو کا کہنا ہے ریاست میں کسی بھی حکومت نے ان کے حقوق کے لئے کام نہیں کیا اور اگر کسی وقت تحفظات کے حوالے سے کوئی بات کہی بھی گئی تاہم وہ کاغذات اور اعلانات تک محدود رہی۔


بائٹ 2: ببلو ۔خواجہ سرا

وادی کشمیر میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سونزل کے چیرپرسن کا کہنا ہے عدالت عظمی نے اپنے ایک فیصلے میں نالسہ کے تحت خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کا درجہ دیا تو ہے لیکن ریاست جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کو عملایا نہیں جارہا ہے ۔ ڈاکڑ اعجاز احمد بند نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو حقوق دلوانے کے تعلق سے تنظیم 2011 سے کئی ایوانوں میں لڑ رہی لیکن کامیابی ابھی نہیں ہو پا رہی ہے

بائٹ3: ڈاکڑاعجاز احمد بند ۔بانی و چیرمین ۔سونزل ،غیر سرکاری تنظیم

ضرورت اس بات کی ہے خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے درجہ کے تحت حقوق اور تحفظات کی پاسداری عمل میں لائی جائے تاکہ یہ بھی اپنی زندگی سماج میں بہتر ڈھنگ سے گزار سکے۔



Conclusion:ای ٹی وی بھارت کے لیے سرینگر سے پرویز الدین کی خاص رپورٹ
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.