ETV Bharat / briefs

احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں

بیدر ریلوے اسٹیشن سے 5.5 کلومیٹر کے فاصلے پر اَشٹور میں واقع بہمنی مقبرہ آج بھی اپنی پرشکوہ عالیشان عمارت کے لیے ملک و بیرون ملک کے سیاحوں میں بے حد مقبول ہے۔ بہمنی سلاطین کے 12 مقبرے اسی کمپاؤنڈ میں واقع ہیں۔

احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں
author img

By

Published : Oct 28, 2019, 3:29 PM IST

یہ مقبرے خوبصورت محرابوں، طاق اور بلند گنبدوں والی ایک بڑی ساخت ہیں۔ تمام مقبروں میں احمد شاہ ولی کا مقبرہ سب سے مشہور ہے۔ سلطان احمد شاہ بہمنی بن داود شاہ بہمنی 1422 کو تخت نشین ہوئے۔ انھوں نے 1430 میں دارالحکومت گلبرگہ سے بیدر منتقل کی اور پرانے قلعے کو دوبارہ تعمیر کرایا۔

احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں

احمد شاہ بہمنی ایک مذہبی حکمراں تھے۔ وہ گلبرگہ کے خواجہ بندہ نواز اور بعد ازاں کرمان شاہ نعمت اللہ سے عقیدت رکھتے تھے۔ انھیں لنگایتس کے نظریے کا بھی احترام کیا گیا ، جو دکن کا ایک مذہبی حکم نامہ تھا ، جو فلسفی، سیاستداں اور سماجی مصلح بساوانا نے قائم کیا تھا۔


احمد شاہ ولی بہمنی کا گنبد انتہائی پر شکوہ عالیشان ہے جس کے اندرونی طلائی نقش ونگار سنہرے حرفوں میں آیت قرآنی تحریر کی گئی ہیں اس تحریر میں لفظوں کی جگہ ہیرے جڑے گئے ہیں۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
سلطان علاءالدین شاہ کا مقبرہ

علاوہ اس کے مرکزی حصے میں گیارہ ہیروں کی مدد سے خوبصورت پھول بنایا گیا تھا جو تاریکی میں چمکتا رہتا تھا۔

موجودہ دور میں لوبان عود اور ابابیلوں کے گھونسلوں سے مقبرے کا اوپری حصہ کالا ہوگیا ہے۔ جس کی چمک ماند پڑ گئی ہے، اس گنبد کو علاءالدین شاہ بہمنی نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کرایا تھا۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں


احمد شاہ بہمنی علم شناس و علم دوست حکمران تھے اور ایک رحم دل بادشاہ بھی تھے۔ سلطان احمد شاہ بہمنی سے منسوب ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ تخت نشیں ہوئے اسی برس شہر میں سخت قحط سالی کا واقعہ پیش آیا، ندی نالے اور کنویں تالاب خشک ہوگئے عوام بے انتہا پریشان ہوگئی۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
سلطان ہمایوں کا مقبرہ

رحم دل بادشاہ سے عوام کی بےبسی دیکھی نہ گئی، احمد شاہ نے انتہائی رنجیدہ ہو کر حکم دیا کے خزانے کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے جائیں اور ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ سلطان احمد شاہ بہمنی نے ایک سال کی طویل مدت تک رعایا کی تمام ضروریات کی تکمیل کی، مگر جب دوسرے سال بھی بارش نہ ہونے کے سبب قحط مسلسل قائم رہا احمد شاہ بہمنی نے پھر سے رعایا کی ضرورت کو پورا کرنے کا حکم دیا۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کا مقبرہ

بعدازاں علمائے کرام سے گزارش کی کہ نماز استسقاء و دعاؤں کا اہتمام کریں۔ علماء مشائخین کے علاوہ تمام رعایا نے مسلسل نمازوں دعاؤں کا اہتمام کیا، مگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی تب اک روز احمد شاہ بہمنی نماز استسقاء ادا کرنے کے لیے شہر سے دور ایک بلند مقام پر پہنچے اور نماز ادا کی اور عاجزی و انکساری سے اللہ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں

ابھی دعا میں مصروف ہی تھے کہ آسمان پر بادل ڈھلکنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش ہونے لگی یہ منظر دیکھنے کے بعد رعایا نے شور مچانا شروع کردیا کہ احمد شاہ بہمنی ولی ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کی ولایت دیکھی ہے۔

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی نے بارہ سال سے زائد حکومت کی اور سنہ1435 کو اس دارفانی سے عالم بقا کو رحلت فرمائی۔

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے عرس کی تقریب ہر سال ہولی تہوار کے بعد چاند کی 20 تاریخ سے شروع ہوتی ہے۔ جس میں بلا مذہب و ملت تمام مذاہب کے ماننے والے لوگ عرس کی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں۔

مسلم بادشاہوں کی رواداری رعایا سے محبت بعد از مرگ اس قدر شان و شوکت کے ساتھ قائم ہیں تو حیات میں کس قدر ہوا کرتی ہوں گی۔

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے مقبرے کے علاوہ سلطان علاءالدین شاہ، سلطان ہمایوں، ملکہ جہاں کے علاوہ خاندان بہمنیہ کے مختلف مزارات یہاں پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر دو مساجد بھی ہیں جن میں سے ایک مسجد میں نماز ادا کی جاتی ہے۔

یہ مقبرے خوبصورت محرابوں، طاق اور بلند گنبدوں والی ایک بڑی ساخت ہیں۔ تمام مقبروں میں احمد شاہ ولی کا مقبرہ سب سے مشہور ہے۔ سلطان احمد شاہ بہمنی بن داود شاہ بہمنی 1422 کو تخت نشین ہوئے۔ انھوں نے 1430 میں دارالحکومت گلبرگہ سے بیدر منتقل کی اور پرانے قلعے کو دوبارہ تعمیر کرایا۔

احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں

احمد شاہ بہمنی ایک مذہبی حکمراں تھے۔ وہ گلبرگہ کے خواجہ بندہ نواز اور بعد ازاں کرمان شاہ نعمت اللہ سے عقیدت رکھتے تھے۔ انھیں لنگایتس کے نظریے کا بھی احترام کیا گیا ، جو دکن کا ایک مذہبی حکم نامہ تھا ، جو فلسفی، سیاستداں اور سماجی مصلح بساوانا نے قائم کیا تھا۔


احمد شاہ ولی بہمنی کا گنبد انتہائی پر شکوہ عالیشان ہے جس کے اندرونی طلائی نقش ونگار سنہرے حرفوں میں آیت قرآنی تحریر کی گئی ہیں اس تحریر میں لفظوں کی جگہ ہیرے جڑے گئے ہیں۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
سلطان علاءالدین شاہ کا مقبرہ

علاوہ اس کے مرکزی حصے میں گیارہ ہیروں کی مدد سے خوبصورت پھول بنایا گیا تھا جو تاریکی میں چمکتا رہتا تھا۔

موجودہ دور میں لوبان عود اور ابابیلوں کے گھونسلوں سے مقبرے کا اوپری حصہ کالا ہوگیا ہے۔ جس کی چمک ماند پڑ گئی ہے، اس گنبد کو علاءالدین شاہ بہمنی نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کرایا تھا۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں


احمد شاہ بہمنی علم شناس و علم دوست حکمران تھے اور ایک رحم دل بادشاہ بھی تھے۔ سلطان احمد شاہ بہمنی سے منسوب ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ تخت نشیں ہوئے اسی برس شہر میں سخت قحط سالی کا واقعہ پیش آیا، ندی نالے اور کنویں تالاب خشک ہوگئے عوام بے انتہا پریشان ہوگئی۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
سلطان ہمایوں کا مقبرہ

رحم دل بادشاہ سے عوام کی بےبسی دیکھی نہ گئی، احمد شاہ نے انتہائی رنجیدہ ہو کر حکم دیا کے خزانے کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے جائیں اور ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ سلطان احمد شاہ بہمنی نے ایک سال کی طویل مدت تک رعایا کی تمام ضروریات کی تکمیل کی، مگر جب دوسرے سال بھی بارش نہ ہونے کے سبب قحط مسلسل قائم رہا احمد شاہ بہمنی نے پھر سے رعایا کی ضرورت کو پورا کرنے کا حکم دیا۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کا مقبرہ

بعدازاں علمائے کرام سے گزارش کی کہ نماز استسقاء و دعاؤں کا اہتمام کریں۔ علماء مشائخین کے علاوہ تمام رعایا نے مسلسل نمازوں دعاؤں کا اہتمام کیا، مگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی تب اک روز احمد شاہ بہمنی نماز استسقاء ادا کرنے کے لیے شہر سے دور ایک بلند مقام پر پہنچے اور نماز ادا کی اور عاجزی و انکساری سے اللہ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔

The tomb of Ahmad Shah Bahmani in the contemporary context
احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں

ابھی دعا میں مصروف ہی تھے کہ آسمان پر بادل ڈھلکنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش ہونے لگی یہ منظر دیکھنے کے بعد رعایا نے شور مچانا شروع کردیا کہ احمد شاہ بہمنی ولی ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کی ولایت دیکھی ہے۔

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی نے بارہ سال سے زائد حکومت کی اور سنہ1435 کو اس دارفانی سے عالم بقا کو رحلت فرمائی۔

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے عرس کی تقریب ہر سال ہولی تہوار کے بعد چاند کی 20 تاریخ سے شروع ہوتی ہے۔ جس میں بلا مذہب و ملت تمام مذاہب کے ماننے والے لوگ عرس کی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں۔

مسلم بادشاہوں کی رواداری رعایا سے محبت بعد از مرگ اس قدر شان و شوکت کے ساتھ قائم ہیں تو حیات میں کس قدر ہوا کرتی ہوں گی۔

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے مقبرے کے علاوہ سلطان علاءالدین شاہ، سلطان ہمایوں، ملکہ جہاں کے علاوہ خاندان بہمنیہ کے مختلف مزارات یہاں پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر دو مساجد بھی ہیں جن میں سے ایک مسجد میں نماز ادا کی جاتی ہے۔

Intro:


Body:گنبد سلطان احمد شاہ ولی بہمنی بیدر


Conclusion:سلطان احمد شاہ بہمنی بن داود شاہ بہمنی نے 1422 کو تخت نشین ہوا.

احمد شاہ بہمنی علم شناس وہ علم دوست حکمران تھا اور ایک رحم دل بادشاہ بھی تھا.

سلطان احمد شاہ بہمنی سے منسوب ایک مشہور واقعہ ہے احمد شاہ بہمنی کے تخت نشیں کے سال سخت قحط واقع ہوا جس کے جلتے ندی نالے اور کنویں تلاب خشک ہوگئے عوام بے انتہا پریشان فکرمند تھی.

رحم دل بادشاہ رعایا کی بےبسی دیکھ کر انتہائی رنجیدہ ہو کر حکم دیا کے خزانے کے دروازے کھول دیئے جائیں اور ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے.

کہا جاتا ہے کہ سلطان احمد شاہ بہمنی نے ایک سال طویل مدت تک رعایا کی تمام ضروریات کی تکمیل کی

. مگر جب دوسرے سل بھی بارش نہ ہونے کے سبب قحط مسلسل رہا احمد شاہ بہمنی نے پھر سے رعایا کی ضرورت کو پورا کرنے کا حکم دیا..

بعدازاں علمائے کرام مشائیخین سے گزارش کی کہ نماز استسقاء و دعاؤں کا اہتمام کریں علماءمشائخین کے علاوہ تمام رعایا نے مسلسل نمازوں دعاؤں کا اہتمام کیا

، مگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی تب اک روز احمد شاہ بہمنی نماز استسقاء ادا کے لئے شہر سے دور ایک بلند مقامات مقام پر پہنچا اور نماز ادا کی اور عاجزی و انکساری سے اللہ سے دعا اٹھا کر دعا کرنے لگا.

بادشاہ ابھی دعا میں مصروف ہی تھا کہ آسمان پر بادل ڈھلکنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش ہونے لگی یہ منظر دیکھنے کے بعد رعایا نے شور مچانا شروع کردیا کہ احمد شاہ بہمنی ولی ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کی ولایت دیکھی ہے

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی بارہ سال سے زائد حکومت کی اور1435، کو دارفانی سے عالم بقا کو رحلت فرمائی.

شہر بیدر سے دو میل کے فاصلے پر مشرق کی جانب موضح اشٹور واقع ہے.

یہاں پر احمد شاہ ولی بہمنی کا گنبد انتہائی پر شکوہ عالیشان ہے.
جس کے اندرونی طلائی نقش ونگار سنہری حرفوں میں آیت قرآنی تحریکیں گئی ہے اس تحریر میں لفظوں کی جگہ ہیرے جڑے گئے ہیں.
علاوہ اس کے مرکزی حصے میں گیارہ ہیرو کی مدد سے خوبصورت پھول بنایا گیا تھا جو تاریکی میں چمکتا رہتا تھا

موجودہ دور میں لوبان عوداور ابابیلوں کے گھونسلوں سے اوپری حصہ کالا ہوگیا ہے.

جس کی چمک ماند پڑ گئی ہے. اس گنبد کو علاوالدین شاہ بہمنی نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کرایا تھا.

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کی عرس کی تقریب ہر سال ہولی تہوار کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے.
جس میں بلا مذہب و ملت تمام مذاہب کے ماننے والے لوگ عرس کی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں.

مسلم بادشاہوں کی رواداری رعایا سے محبت بعدازمرگ اس قدر شان و شوکت کے ساتھ ہوں تو حیات میں کس قدر ہوا کرتی ہوگی.
مگر اس بات کو بھی احمد شاہ بہمنی کی کرامات کہا جائے تو غلط نہ ہوگا

سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے مقبرے کے علاوہ سلطان علاوالدین شاہ، سلطان ہمایون، ملکہ جہاں کے علاوہ خاندان بہمنیہ کے مختلف مزارات یہاں پر موجود ہیں.

اس کے علاوہ یہاں پر دو مساجد بھی ہیں جن میں سے ایک مسجد میں نماز نماز پڑھی جاتی ہے اور دوسرے میں نہیں

بائیت... محمد سلطان خلیل شاہ بہمنی بیدر
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.