شہر حیدرآباد میں چابی بنانے والے فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ کاروبار کےعروج میں یومیہ دو تا تین ہزار کمانے والے ان افراد کی آمدنی بمشکل یومیہ 150 تا 200 روپے ہے۔
ہرتالے کی چابی بنانے والے اپنی قسمت کی چابی نہیں بنا سکے!
مکان ہو یا دوکان یا پھر سواری ہو یا تجوری ان کی حفاظت کی بات آئے تو ذہن تالے کی طرف جاتا ہے، کیونکہ تالا ان تمام چیزوں کی حفاظت کرتا ہے۔ چند برس قبل تالے کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی، لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب ان کی جگہ آٹو میٹک لاک نے لے لی ہے۔
ہر تالے کی چابی بنانے والے اپنی قسمت کی چابی نہیں بنا سکے، متعلقہ تصویر
شہر حیدرآباد میں چابی بنانے والے فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ کاروبار کےعروج میں یومیہ دو تا تین ہزار کمانے والے ان افراد کی آمدنی بمشکل یومیہ 150 تا 200 روپے ہے۔
Intro:مکان ہو یا دوکان یا پھر سواری ہو یا تجوری ان کی حفاظت کی بات آئے تو ذہن تالے کی طرف جاتا ہے کیونکہ تالا ان تمام چیزوں کی حفاظت کرتا چند برس قبل تالو کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی تھی لیکن ٹیکنالوجی نے ان کا بھی خاتمہ کر دیا_ شہر حیدرآباد میں چابی بنانے والے فاقہ کشی پر مجبور ہیں کاروبار کےعروج میں یومیہ دو تا تین ہزار کمانے والے دے ان افراد کی آمدنی آج بمشکل یومیہ 150 تا 200 روپے ہے_
کبھی دن بھر مصروف رہنے والے یہ چابی ساز آج سارا دن محض انتظار میں گزارتے ہیں کہ کوئی گاہک مل جائے لیکن ان کا یہ انتظار یار کبھی تین چار دن لمبا ہوتا ہے ہے اور کوئی گاہک نہیں ملتا نتیجے میں انہیں خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے
Body:ای ٹی وی بھارت نے حیدرآباد کے مختلف چابی سازوں سے ان کا حال جاننے کی کوشش کی چابی سازوں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا سارا حفاظتی نظام نام سوفٹویر پر منحصر ہے جس کے لئے چابی کی ضرورت نہیں اور وہ ٹیکنالوجی کو اپنانے سے قاصر ہیں ان چابی سازوں کے مطابق آئندہ چند سالوں میں چابیاں بنانے والے ختم ہو جائیں گے گے اور تالوں کا شمار نایاب اشیاء میں ہونے لگے گا
Conclusion:
کبھی دن بھر مصروف رہنے والے یہ چابی ساز آج سارا دن محض انتظار میں گزارتے ہیں کہ کوئی گاہک مل جائے لیکن ان کا یہ انتظار یار کبھی تین چار دن لمبا ہوتا ہے ہے اور کوئی گاہک نہیں ملتا نتیجے میں انہیں خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے
Body:ای ٹی وی بھارت نے حیدرآباد کے مختلف چابی سازوں سے ان کا حال جاننے کی کوشش کی چابی سازوں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا سارا حفاظتی نظام نام سوفٹویر پر منحصر ہے جس کے لئے چابی کی ضرورت نہیں اور وہ ٹیکنالوجی کو اپنانے سے قاصر ہیں ان چابی سازوں کے مطابق آئندہ چند سالوں میں چابیاں بنانے والے ختم ہو جائیں گے گے اور تالوں کا شمار نایاب اشیاء میں ہونے لگے گا
Conclusion: