مشرقی افریقہ اور سوڈان کے امور کے لیے امریکی وزیرخارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے تمام آپشن زیرغور ہیں، جن میں سوڈان میں بڑھتے تشدد کی صورت میں پابندیاں عائد کرنا بھی شامل ہے۔
اطلاع کے مطابق امریکی عہدے دار نے ایوان نمائندگان کے ایک اجلاس میں واضاحت پیش کی ہے کہ پابندیوں میں ممکنہ طور پر ویزوں کا عدم اجرا یا اقتصادی پابندیاں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ اس سلسلے میں مناسب طریقہ کار اور محض تشدد میں ملوث شخصیات کو نشانہ بنانے کی خواہاں ہے۔
خیال رہے کہ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں اپریل میں ہونے والی فوجی بغاوت اور ملک میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف دھرنا دینے والوں پر براہ راست فائرنگ سے اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ مختلف علاقوں میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے، فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے اب تک متعدد شہری ہلاک ہوچکے ہیں حالانکہ ابھی بھی مزید ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے۔
دوسری جانب پراسیکیوٹر جنرل نے 11 اپریل کو فوج کے ہاتھوں معزول ہونے والے سابق صدرعمر البشیر پر مالی بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزام عائد کیے۔
خیال رہے کہ معزول صدر پر غیر ملکی کرنسی رکھنے، بدعنوانی کی دولت جمع کرنے اور مشکوک جائیداد رکھنے کا الزام ہے۔
خیال رہے کہ سوڈان میں عوام کے طویل احتجاج کے بعد ملک کی مسلح افواج نے سابق صدر عمر البشیر کو ان کےعہدے سے ہٹا کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔