ETV Bharat / briefs

شکیل بدایونی کی برسی پرخصوصی پیشکش

بالی وڈ سینما کی نغموں کی دنیا میں شکیل بدایونی سکون کا وہ جزیرہ ہے جس پر موسیقی کے دیوانے ٹھہرنا چا ہتے ہیں، اسے محسوس کرنا چا ہتے ہیں، گنگنانا چاہتے ہیں۔

شکیل بدایونی کی برسی پرخصوصی پیشکش
author img

By

Published : Apr 20, 2019, 12:31 PM IST

چودھویں کا چاندکا چاند ہویاآفتاب ہو
جو بھی تم خداکی قسم لاجواب ہو
اپنے محبو ب کی تعریف میں برسوں تک عاشقوں کی زبان پر ازبر ہونے والے اس لاجواب گیت کے خالق شکیل بداونی تھے۔

مشہور موسیقی کار نوشاد کے ساتھ شکیل نے ہیٹ گانے کی وراثت دی جوشاہد بالی ووڈ اس کا قرض کبھی اتار نہیں پائے گا۔
موسیمی کار ہیمنت کمار اور روی کی دھنوں پر بھی شکیل کی گیتوں نےوہ سماں باندھاکہ آ ج بھی سنگیت کی محفلیں ان کے بناادھوری لگتی ہے۔
جب چلی ٹھنڈی ہوا
جب اٹھی کالی گھٹا
مجھ کواے جانے وفا
تم یاد آ ئے
روحانی افسانوں کے بادشاہ کہے جانے والے شکیل بدایونی کی پیدائش 3 اگست1916 کو اتر پردیش کے بدوی میں ہوئی۔ادب کی دنیا میں یعنی شاعری کی طرف جھکاؤدور کے رشتہ دار مولاناضیالحق قدری کی وجہ سے ہوا۔ وہ ایک مشہور شاعرتھے اور ان ہی سے متاثر ہوکرشکیل نے شعروشاعری کواپنی زندگی بنالی۔
1936 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھا ئی کے دوران ہی شکیل بدایونی نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔پڑھا ئی مکمل ہونے کے بعدشکیل بدایونی نے دہلی کا رخ کیا۔
روزی روٹی کے لیے انہوں نے سپلائی افسر کی نوکری کی۔مگر اپنے شوق کو پورا کرنے کےلیے مشاعروں میں مسلسل حصہ لیتے رہے۔
(کہتے ہیں کہ شکیل بدوی جب ٹرین سے ایک شہر سےدوسرر شہر جاتے تھے توانہیں ملنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پرلوگوں کی بھیڑ جمع ہو جاتی تھی)
لیکن جن پرندوں کی فطرت آزاد ہوتی ہے۔وہ پنجرے میں نہیں رہ سکتے ہیں۔شکیل کوہر مہینے آسانی سے ملنے والی تنخواہ کی لالچ بھی نہیں روک پایااورایک دن نوکری چھوڑ کر انہوں نے بمبئی یعنی آ ج کے ممبئی جانے کے لیے گاڑی پکڑی۔
شکیل کو پہلا بریک 1947 میں آ ئی فلم درد میں ملا۔اس فلم میں ایک گیت ہے۔
افسانہ لکھ رہوں دل بے قرارکا
آنکھوں میں رنگ بھرک تیرےانتظارکا
یہ گانا اوما دے نے گایاتھا۔وہ اوما دیوی ہیں جنہیں پہلے پردے کی کامیڈی کوئن ٹون ٹون کے نام سے جانتے ہیں۔ اوما دیوی کی عجیب سی درد بھری آواز، نوشاد کی دھن اور شکیل کی الفاظوں سئ سجا اس گیت دھوم مچادی تھی۔
اس کے بعد تونوشاد صاحب کے ساتھ شکیل بدوی کی جوڑی جم گئی اوراگلے 20 برسوں تک یہ لاجواب جگل بندی لوگوں کے اپنے شاندارسنگیت کی بھینی بارش میں بھگوتی رہی۔
1952 میں آ ئی بیجوباورا کامہان بھجن من تڑپت ہری درشن کوآج۔۔۔۔۔
شکیل کی قلم سے ہی نکلی ہے۔اس بھجن کوسینما کی دنیا میں سکولر کی مثال منا جا تا ہے۔اس بےمثال بھجن کوشکیل بدوی نے لکھا۔نوشاد نے موسیقی سے سجایا اور محمد رفع صاحب نے گا یا۔
اس سے پہلے 1951 میں آ ئی پہلی فلم دیدارکاگانا
بچپن کے دن بھولانہ دینا
آج ہنسےکل بھولانہ دینا
1955 میں اڑن کھٹولہ
اے دور کے مسافر
ہم کوبھی ساتھ لے لے رہے
ہم رہ گئے اکیلے
اس کے بعد 1960 میں ریلیز ہوئی مغل اعظم
تیرے محفل میں قسمت آزماکرہم بھی دکھیں گے
گھڑی بھرکوتیرے نزدیک آ کرہم بھی دکھیں گے۔۔۔
لتا مینگسکراور شمشماد بیگم کی شاندار آواز سی سجااس قوالی کی جان تھی۔ شکیل صاحب کی شاندار بول، جنہوں نے دلیپ کمارکے یعنی سلیم کے دل میں مدھو بالا یعنی انار کلی کے لیے بھوک پیدا کردی تھی۔
دلاری، گنگاجمنا،شباب، میرے محبوب، ایسی فلموں کی لمبی فہرست ہے جن کی کامیابی میں شکیل صاحب کی گیتوں نے بڑا رول ادا کیا۔
1957 میں پردہ سمیں پر آنے والی محبوب خان کی فلم مدر انڈیا کو کون بھول سکتاہے۔
گیت سنگیت کی جوڑی تھی وہی نوشاد اور شکیل۔ شروعات میں اس کے گانوں کو زیادہ پسند نہیں کیا گیا تھا۔لیکن بعد میں اس کے گیت لوگوں کی زباں میں چڑھ کربولی۔
شمشاد بیگم کی آواز میں ہولی آ ئی رے کنہائی رنگ برسے بجادے ذرابانسوری۔
برسوں بعد آج بھی ہولی کے دن گلی کوچوں میں یہ گاناگونجتا دیکھ جاتاہے۔
کامیابی کے اس سفرمیں تعریف کے ساتھ ساتھ انعام بھی شکیل صاحب پر خوب برسا۔
سال 1961،62،63 میں لگاتارتین سال انہوں بہتر ین نغمہ نگار کے فلم فئیر ایوارڈ جیت کرہیٹ لگا ئی۔ جسے برسوں تک کوئی توڑ نہیں پایا۔
لیکن شکلیل بدایونی کو فلمی سنگیت تک محدود کرنانادانی ہوگی۔
وہ ایک عظیم شاعرتھے جس کی شاعری میں محبتوں کے خواب تھے تو عام زندگی کے درد بھی۔
میں شکیل دل کا ہوں ترجماں
کہ محبتوں کاہوں رازداں
مجھے فخر ہے میری شاعری
میری زندگی سے جدا نہیں
افسوس کی بات ہے کہ اپنے گیتوں کے مخڑے سجانے میں مصروف رہے شکیل بدایوونی نے اپنی صحت کو پوری طرح سے نظر انداز کیا اور اندر ہی اندر ٹی بی کی بیماری انہیں کھوکھلا کرتی گئی۔
20 اپریل1970 کو 53 سال کی عمر میں شکیل بدایونی اس دنیا سے رخصت کرگئےاورچھوڑ گئے لفظوں کی وارثت جو انہیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رکھے گی۔

چودھویں کا چاندکا چاند ہویاآفتاب ہو
جو بھی تم خداکی قسم لاجواب ہو
اپنے محبو ب کی تعریف میں برسوں تک عاشقوں کی زبان پر ازبر ہونے والے اس لاجواب گیت کے خالق شکیل بداونی تھے۔

مشہور موسیقی کار نوشاد کے ساتھ شکیل نے ہیٹ گانے کی وراثت دی جوشاہد بالی ووڈ اس کا قرض کبھی اتار نہیں پائے گا۔
موسیمی کار ہیمنت کمار اور روی کی دھنوں پر بھی شکیل کی گیتوں نےوہ سماں باندھاکہ آ ج بھی سنگیت کی محفلیں ان کے بناادھوری لگتی ہے۔
جب چلی ٹھنڈی ہوا
جب اٹھی کالی گھٹا
مجھ کواے جانے وفا
تم یاد آ ئے
روحانی افسانوں کے بادشاہ کہے جانے والے شکیل بدایونی کی پیدائش 3 اگست1916 کو اتر پردیش کے بدوی میں ہوئی۔ادب کی دنیا میں یعنی شاعری کی طرف جھکاؤدور کے رشتہ دار مولاناضیالحق قدری کی وجہ سے ہوا۔ وہ ایک مشہور شاعرتھے اور ان ہی سے متاثر ہوکرشکیل نے شعروشاعری کواپنی زندگی بنالی۔
1936 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھا ئی کے دوران ہی شکیل بدایونی نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔پڑھا ئی مکمل ہونے کے بعدشکیل بدایونی نے دہلی کا رخ کیا۔
روزی روٹی کے لیے انہوں نے سپلائی افسر کی نوکری کی۔مگر اپنے شوق کو پورا کرنے کےلیے مشاعروں میں مسلسل حصہ لیتے رہے۔
(کہتے ہیں کہ شکیل بدوی جب ٹرین سے ایک شہر سےدوسرر شہر جاتے تھے توانہیں ملنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پرلوگوں کی بھیڑ جمع ہو جاتی تھی)
لیکن جن پرندوں کی فطرت آزاد ہوتی ہے۔وہ پنجرے میں نہیں رہ سکتے ہیں۔شکیل کوہر مہینے آسانی سے ملنے والی تنخواہ کی لالچ بھی نہیں روک پایااورایک دن نوکری چھوڑ کر انہوں نے بمبئی یعنی آ ج کے ممبئی جانے کے لیے گاڑی پکڑی۔
شکیل کو پہلا بریک 1947 میں آ ئی فلم درد میں ملا۔اس فلم میں ایک گیت ہے۔
افسانہ لکھ رہوں دل بے قرارکا
آنکھوں میں رنگ بھرک تیرےانتظارکا
یہ گانا اوما دے نے گایاتھا۔وہ اوما دیوی ہیں جنہیں پہلے پردے کی کامیڈی کوئن ٹون ٹون کے نام سے جانتے ہیں۔ اوما دیوی کی عجیب سی درد بھری آواز، نوشاد کی دھن اور شکیل کی الفاظوں سئ سجا اس گیت دھوم مچادی تھی۔
اس کے بعد تونوشاد صاحب کے ساتھ شکیل بدوی کی جوڑی جم گئی اوراگلے 20 برسوں تک یہ لاجواب جگل بندی لوگوں کے اپنے شاندارسنگیت کی بھینی بارش میں بھگوتی رہی۔
1952 میں آ ئی بیجوباورا کامہان بھجن من تڑپت ہری درشن کوآج۔۔۔۔۔
شکیل کی قلم سے ہی نکلی ہے۔اس بھجن کوسینما کی دنیا میں سکولر کی مثال منا جا تا ہے۔اس بےمثال بھجن کوشکیل بدوی نے لکھا۔نوشاد نے موسیقی سے سجایا اور محمد رفع صاحب نے گا یا۔
اس سے پہلے 1951 میں آ ئی پہلی فلم دیدارکاگانا
بچپن کے دن بھولانہ دینا
آج ہنسےکل بھولانہ دینا
1955 میں اڑن کھٹولہ
اے دور کے مسافر
ہم کوبھی ساتھ لے لے رہے
ہم رہ گئے اکیلے
اس کے بعد 1960 میں ریلیز ہوئی مغل اعظم
تیرے محفل میں قسمت آزماکرہم بھی دکھیں گے
گھڑی بھرکوتیرے نزدیک آ کرہم بھی دکھیں گے۔۔۔
لتا مینگسکراور شمشماد بیگم کی شاندار آواز سی سجااس قوالی کی جان تھی۔ شکیل صاحب کی شاندار بول، جنہوں نے دلیپ کمارکے یعنی سلیم کے دل میں مدھو بالا یعنی انار کلی کے لیے بھوک پیدا کردی تھی۔
دلاری، گنگاجمنا،شباب، میرے محبوب، ایسی فلموں کی لمبی فہرست ہے جن کی کامیابی میں شکیل صاحب کی گیتوں نے بڑا رول ادا کیا۔
1957 میں پردہ سمیں پر آنے والی محبوب خان کی فلم مدر انڈیا کو کون بھول سکتاہے۔
گیت سنگیت کی جوڑی تھی وہی نوشاد اور شکیل۔ شروعات میں اس کے گانوں کو زیادہ پسند نہیں کیا گیا تھا۔لیکن بعد میں اس کے گیت لوگوں کی زباں میں چڑھ کربولی۔
شمشاد بیگم کی آواز میں ہولی آ ئی رے کنہائی رنگ برسے بجادے ذرابانسوری۔
برسوں بعد آج بھی ہولی کے دن گلی کوچوں میں یہ گاناگونجتا دیکھ جاتاہے۔
کامیابی کے اس سفرمیں تعریف کے ساتھ ساتھ انعام بھی شکیل صاحب پر خوب برسا۔
سال 1961،62،63 میں لگاتارتین سال انہوں بہتر ین نغمہ نگار کے فلم فئیر ایوارڈ جیت کرہیٹ لگا ئی۔ جسے برسوں تک کوئی توڑ نہیں پایا۔
لیکن شکلیل بدایونی کو فلمی سنگیت تک محدود کرنانادانی ہوگی۔
وہ ایک عظیم شاعرتھے جس کی شاعری میں محبتوں کے خواب تھے تو عام زندگی کے درد بھی۔
میں شکیل دل کا ہوں ترجماں
کہ محبتوں کاہوں رازداں
مجھے فخر ہے میری شاعری
میری زندگی سے جدا نہیں
افسوس کی بات ہے کہ اپنے گیتوں کے مخڑے سجانے میں مصروف رہے شکیل بدایوونی نے اپنی صحت کو پوری طرح سے نظر انداز کیا اور اندر ہی اندر ٹی بی کی بیماری انہیں کھوکھلا کرتی گئی۔
20 اپریل1970 کو 53 سال کی عمر میں شکیل بدایونی اس دنیا سے رخصت کرگئےاورچھوڑ گئے لفظوں کی وارثت جو انہیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رکھے گی۔

Intro:Body:

news


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.