حیدرآباد دکن کی برطانیہ کے بنک میں موجود 35 ملین پاونڈ پر مشتمل رقم کا کنٹرول حاصل کرنے کےلیے لندن ہائیکورٹ میں بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
نظام کے ورثا بھارتی حکومت کے دعویٰ کے ساتھ ہیں۔
نظام کی جانب سے 16 ستمبر 1948 کو جمع کئے گئے ایک ملین پاونڈ 70 برسوں میں سود کی وجہ سے اب اس کی مالیت 35 ملین پونڈ تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس وقت کے نظام نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو ایک ملین پاونڈ ٹرانسفر کئے تھے۔
جبکہ بھارت، نظام کے ورثا کے ساتھ ملکر اس رقم پر اپنا دعویٰ کر رہا ہے اور نظام کے پرپوتے مکرم جاہ جو اس وقت ترکی میں قیام پذیر ہیں اور ان کے بھائی مفخم جاہ کا کہنا ہے کہ یہ رقم ان کے دادا نے انہیں تحفہ میں دی تھی۔
لندن ہائیکورٹ، 70 سال قبل نظام کی جانب سے رکھی گئی رقم کا فیصلہ کریگا۔
اس کثیر رقم کو نظام حیدرآباد نے برطانیہ میں حکومت حیدرآباد کے سفارتخانہ کے ذریعہ 1948 میں منتقل کروائی تھی۔ تقسیم ملک کے بعد ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آیا جس نے لاکھوں پاونڈ مالیتی رقم کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ رقم پاکستان کی ملکیت ہے-
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں قدیم قانونی تنازعہ برطانیہ کے ہائیکورٹ میں اہم مرحلہ پر پہنچ چکا ہے۔
نظام کے ورثا پرنس مکرم جاہ آصف جاہ ثامن اور ان کے چھوٹے بھائی پرنس مفخم جاہ لندن کے نیٹ ویسٹ بنک میں رکھی ہوئی اس رقم پر پاکستانی حکومت کے خلاف قانونی جدوجہد میں ہندوستانی حکومت کے ساتھ ہیں۔
نظام کے ورثا جن کی حمایت ہندوستان کر رہا ہے، نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ رقم ان کی ہے۔
دو ہفتہ کی سماعت کی صدارت جسٹس مارکس اسمتھ کررہے ہیں۔
اس کیس کو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر بنام دیگر 7 بشمول نظام کے ورثا، ہند یونین اور صدرجمہوریہ ہند قرار دیا گیا ہے۔
کئی برسوں سے جاری تنازعہ کا آئندہ مہینوں میں حل کرنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
جج دو ماہ کے اندر اس مرکزی سوال کا فیصلہ کرے گا کہ 35 ملین پونڈ کی رقم کا مالک کون ہے۔
نظام حیدرآباد کی لندن میں رقم کا مقدمہ اہم مرحلے میں داخل - حیدرآباد
حیدرآباد دکن کے آخری نظام کی برطانیہ کے نیٹ ویسٹ بنک میں رکھی گئی رقم پر بھارت اور پاکستان اپنا اپنا دعویٰ پیش کر رہے ہیں۔ اور یہ معاملہ اب دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔
حیدرآباد دکن کی برطانیہ کے بنک میں موجود 35 ملین پاونڈ پر مشتمل رقم کا کنٹرول حاصل کرنے کےلیے لندن ہائیکورٹ میں بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
نظام کے ورثا بھارتی حکومت کے دعویٰ کے ساتھ ہیں۔
نظام کی جانب سے 16 ستمبر 1948 کو جمع کئے گئے ایک ملین پاونڈ 70 برسوں میں سود کی وجہ سے اب اس کی مالیت 35 ملین پونڈ تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس وقت کے نظام نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو ایک ملین پاونڈ ٹرانسفر کئے تھے۔
جبکہ بھارت، نظام کے ورثا کے ساتھ ملکر اس رقم پر اپنا دعویٰ کر رہا ہے اور نظام کے پرپوتے مکرم جاہ جو اس وقت ترکی میں قیام پذیر ہیں اور ان کے بھائی مفخم جاہ کا کہنا ہے کہ یہ رقم ان کے دادا نے انہیں تحفہ میں دی تھی۔
لندن ہائیکورٹ، 70 سال قبل نظام کی جانب سے رکھی گئی رقم کا فیصلہ کریگا۔
اس کثیر رقم کو نظام حیدرآباد نے برطانیہ میں حکومت حیدرآباد کے سفارتخانہ کے ذریعہ 1948 میں منتقل کروائی تھی۔ تقسیم ملک کے بعد ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آیا جس نے لاکھوں پاونڈ مالیتی رقم کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ رقم پاکستان کی ملکیت ہے-
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں قدیم قانونی تنازعہ برطانیہ کے ہائیکورٹ میں اہم مرحلہ پر پہنچ چکا ہے۔
نظام کے ورثا پرنس مکرم جاہ آصف جاہ ثامن اور ان کے چھوٹے بھائی پرنس مفخم جاہ لندن کے نیٹ ویسٹ بنک میں رکھی ہوئی اس رقم پر پاکستانی حکومت کے خلاف قانونی جدوجہد میں ہندوستانی حکومت کے ساتھ ہیں۔
نظام کے ورثا جن کی حمایت ہندوستان کر رہا ہے، نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ رقم ان کی ہے۔
دو ہفتہ کی سماعت کی صدارت جسٹس مارکس اسمتھ کررہے ہیں۔
اس کیس کو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر بنام دیگر 7 بشمول نظام کے ورثا، ہند یونین اور صدرجمہوریہ ہند قرار دیا گیا ہے۔
کئی برسوں سے جاری تنازعہ کا آئندہ مہینوں میں حل کرنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
جج دو ماہ کے اندر اس مرکزی سوال کا فیصلہ کرے گا کہ 35 ملین پونڈ کی رقم کا مالک کون ہے۔