یہاں کے زیادہ تر باشندوں کواپنے اہل خانہ کے ساتھ اینٹ بھٹوں پر جی توڑ محنت کرنے کے بعد ہی انہیں دو وقت کی روٹی میسر ہوتی ہے۔
ان سب کے درمیان اینٹ بھٹہ پر کام کرنے والے مزدوروں کے بچہ اسکول کا منھ تک نہیں دیکھ پاتے، اس کی سب سے بڑی وجہ سال کے سات ماہ اینٹ بھٹہ پر ہی کام کرتے ہوئے گزارنا ہے۔
وہ بارش کے موسم میں اپنے آبائی گھروں لوٹتے ہیں، جسکی وجہ سے اس علاقہ کی ایک بڑی آبادی نسل در نسل تعلیم سے محروم ہے۔
ریاستی حکومت قبائلی باشندوں کی فلاح و بہبود کے نام پر ہر برس اسکیم کا اعلان کرتی ہے، مگر جس کی زمینی سچائی اس علاقے کے قبائلی ہے جنہیں دو وقت کی روٹی تک نصیب نہیں ہے۔
ہر برس اس علاقے میں بڑی تعداد میں نوزائیدہ بچے غذائی قلت کے سبب جاں بحق ہوجاتے ہیں اور وہ اعدادوشمار بھی عوامی نمائندوں کی بے حسی اور حکومت کی چشم پوشی کی واضح طور سے بیان کرتی ہے۔
شاہ پور تعلقہ کے کچھ مقامی نوجوانوں نے ایک این جی او کے ذریعہ کم وقت میں ہی قبائلی افراد کے لیے روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں.
ادیواسی ایکاتمک ساماجک سنستھا کے صدر سنیل پوار نے بتایا کہ اس علاقے کے غریب قبائلی اینٹ بھٹہ پر 16 سے 18 گھنٹے کام کرتے، مگر اسکے بعد بھی انہیں دو وقت کے کھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔ اس لیے وہ اور انکے ساتھیوں نے یہ این جی او کی مدد سے شاہ پور اور مرباڈ کے جنگلوں میں ملنے والے قدرتی سامان قبائلی باشندوں کو اچھی قیمت دے کر انکے گھر سے ہی خرید لیتے ہیں.
مجموعی طور پر اب اس این جی او سے وابستہ لوگوں کی زندگی میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں اب وہ یومیہ 600 روپے سے لیکر 800 روپے کما رہے ہیں۔ شاہ پور علاقے کے نوجوان دتتاترے واگھ نے بتایا کہ وہ ایک اینٹ بھٹہ پر کام کرنے والا مزدور تھا مگر اب وہ ان جنگلی چیزوں کو گاؤں سے خرید کر وہ لاتا ہے جسکی وجہ سے وہ یومیہ 800 سے لیکر 1000 روپے کمالیتا ہے۔
یہ کہانی چند لوگوں کی ہے جو اپنی محنت کی پوری کمائی کررہے ہیں. مگر اب بھی اینٹ بھٹہ پر کام کرنے والے ایسے مزدور موجود ہے جن کی زندگی مٹی اور اینٹ اور اسکے انگاروں کے درمیان گزرتی ہے، مگر انہیں انکی محنت کا پورا حق انہیں آج بھی نہیں مل رہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے اسی علاقے میں ایک اینٹ بھٹہ پر کام کرنے والے لکشمن واگھ نامی قبائلی سے بات کی جو ہندی سے پوری طرح نابلد تھا اس نے مراٹھی زبان میں کہاکہ وہ اینٹ بھٹہ میں انگار لگاتا ہے اور علی الصبح سے دیر شام تقریباً 12 گھنٹے کام کرتا ہے اور اسے یومیہ250 سو پچاس روپے ملتے ہیں، مزدوری کے ان پیسوں سے اہل خانہ کے پیٹ کی آگ ہی بجھتی ہے، بچوں کو اسکول کیسے بھیج پائیں گے کیونکہ یہ پیسے ہی انکے لیے ناکافی ہے۔