مسٹر انصاری نے کہا کہ نئے سیاسی ماحول میں مسلم قیادت بے معنی ہو گئی ہے۔ اب مسلمانوں کو سیکولرزم اور اتحاد سے اوپر اٹھ کر نئی پہل کرنی ہوگی۔
پسماندہ مسلمانوں اور پسماندہ غیر مسلموں کو متحد ہو کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔ انہیں اب سڑکوں پر اترنا ہوگا۔
علی انور نے نئی حکومت کی کابینہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نئی کابینہ میں جن لوگوں کو نمائندگی دی گئی ہے اس سے یہ قول صادق آتا ہے کہ 'مال مھاراج کا اور مرزا کھیلے ہولی'۔
انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کی بات کو محض بھاشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف کہہ دینے سے کچھ نہیں ہوتا ہے، کرنے اور کہنے میں فرق ہوتا ہے ۔
مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں داڑھی اور ٹوپی دیکھ کر کے زبردستی جے شری رام کا نعرہ لگانے کے نام پر لوگوں کو مارا پیٹا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ مسلم قیادت بے مول اور بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ مسلمانوں میں جو 80 فیصد پسماندہ آبادی ہے اس کی آواز بھی کہیں نہیں رہ گئی ہے۔
بی جے پی سے یا این ڈی اے میں شامل پارٹیوں سے مسلمان کوئی توقع نہیں رکھتا، انہوں نے کہا کہ جو سیکولر پارٹیاں ہیں وہ مسلمانوں کو بی جے پی کا ڈر دکھا کر اور بی جے پی ہندؤں کو مسلمون کا ڈر دکھا کر ووٹ لینے کے لیے متحد کر رہی ہیں۔
اب مسلمانوں کو اس کھیل سے باہر نکلنا چاہیے اور اب اس کا متبادل مسلمانوں کو تلاش کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ غیرمسلموں میں جو پسمان دہ دلت سماج کے لوگ ہیں جن کے اندر بے چینی ہے اور ان کے ساتھ مسلمانوں کو مل کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
مسلمانوں کو اب اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جو فرقہ پرستی ہے مسلمانوں کے درمیان بھی اور غیر مسلموں کے درمیان اس سے نجات حاصل کرنا ہوگا۔ ہر طرح کی فرقہ پرستی سے اصولی لڑائی لڑنی ہوگی صرف جوڑ توڑ سے کام نہیں چلے گا۔